https://twitter.com/AdityaRajKaul/status/1321514168600551424
اس بیان کو سن کر حکومتی وزرا بہت خوش ہوئے، کیونکہ انہیں لگا کہ یہی وہ بیان ہے کہ جس کی بنیاد پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو وطن دشمن، بھارت نواز اور غدار ثابت کیا جا سکے گا۔ بھارتی میڈیا نے بھی اس کو اپنی کامیابی بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا کہ پاکستان نے ابھی نندن کو اس لئے واپس کیا کیونکہ اسے بھارت کی طرف سے حملے کا خطرہ تھا۔ یہاں وزرا نے بھارتی میڈیا کا حوالہ دے دے کر ایاز صادق پر خوب لعن طعن کی۔ یہاں تک کہ ایاز صادق کو اس بیان کی وضاحت جاری کرنا پڑ گئی۔
https://twitter.com/MurtazaViews/status/1321750519052984320
بیچارے ایاز صادق نے تو اپنا بیان قومی سلامتی کے تقاضوں کے تحت واپس لے لیا اور اسے بھارت کے بجائے اپوزیشن کا خوف بنا کر پیش کر دیا لیکن سماء ٹی وی کے پروگرام میں بیٹھے رانا ثنااللہ نے کوئی لحاظ نہ کیا اور صاف کہہ دیا کہ وہ بھی اس اجلاس میں موجود تھے اور واقعتاً شاہ محمود قریشی کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔
ابھی یہ سلسلہ کچھ تھمنے میں آتا، اس سے پہلے ہی وفاقی وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی نے قومی اسمبلی میں شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کے چکر میں ایک تقریر کر ڈالی اور اسی تقریر کے دوران ان سے کچھ ایسا منہ سے نکل گیا کہ جس کے لئے اردو زبان میں بڑا خوبصورت محاورہ ہے کہ اڑتا تیر بغل میں لینا۔ فواد چودھری نے کیا کہا، پہلے سن لیجئے:
https://twitter.com/majorgauravarya/status/1321779140165431298
اب بیچارے چودھری صاحب کہنا تو چاہ رہے تھے کہ ہم نے پلوامہ کے بعد جب بالاکوٹ پر حملہ ہوا تو پاک فضائیہ نے بھارت کے اندر ایک آپریشن کیا، ان کا پیچھا کرتا ہوا بھارتی پائلٹ پاکستان کی سرحد کے اندر داخل ہو گیا جہاں اس کا جہاز گرا کر اس کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ لیکن ان کے منہ سے نکلا کہ ہم نے پلوامہ میں گھس کے مارا۔ اس بات کا بھی بھارتی میڈیا نے ویسے ہی بتنگڑ بنایا جیسے ایاز صادق کی بات کا بنایا تھا۔ اب مسلم لیگ ن کی جانب سے فواد چودھری کے بیان پر بھارتی میڈیا کی کوریج کو بنیاد بنا کر انہیں غدار قرار دیا جانے لگا۔
معاملہ دراصل یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی حکومت، خواہ وہ فوجی ہو یا سیاسی، بھارت سے جنگ نہیں چاہتی۔ نواز شریف، بینظیر بھٹو یا عمران خان کو تو چھوڑیے، جنرل پرویز مشرف کی دوستی کی کوششوں کو بھی ایک طرف رکھ چھوڑیے، جنرل ضیاالحق بھی کبھی بھارت سے جنگ نہیں چاہتا تھا۔ لیکن جس عجلت میں ابھی نندن کو واپس بھارت بھجوایا گیا، وہ واقعی حیران کن تھا۔ کلبھوشن یادیو کو بھی پاکستان کے اداروں نے پکڑا تھا۔ یہ واقعہ 2016 مارچ کا ہے۔ وہ ابھی تک پاکستان کی ایک جیل میں موجود ہے لیکن دوسری طرف ابھی نندن کو دو دن کے اندر اندر واپس بھجوا دیا گیا۔ شاید حکومت کو واقعی جنگ کا خطرہ ہو اور وہ ایسی کسی صورتحال سے بچنے کی کوشش کر رہی ہو لیکن پھر دوسروں کو کلبھوشن کا نام نہ لینے کے طعنے دینا، غدار قرار دینا اور خود ہاتھ آئے دشمن پائلٹ کو ہاپڑ داپڑ میں واپس بھیجنا، دونوں کچھ ساتھ نہیں بیٹھتے۔ ان سب باتوں کے باوجود، سردار ایاز صادق نے قومی سلامتی کے ایک معاملے کو یوں سرِ عام موضوعِ بحث بنایا، یہ بات بہت سے حلقوں میں ناپسند کی گئی۔
گذارش یہ ہے کہ ایک دوسرے پر اس طرح کے الزامات لگا کر حکومت یا اپوزیشن کو ملتا کیا ہے؟ یہ درست ہے کہ اس کی شروعات حکومت کی طرف سے کی گئی لیکن اپوزیشن بھی اپنے دفاع میں وہی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔
اس سے پہلے بھی اسد عمر نے بھارتی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے سکرین شاٹس کے پرنٹ نکال کر پریس کانفرنس میں لہرائے تھے۔ اب بھی وہ پروین شاکر کے اشعار ٹوئیٹ کر رہے ہیں۔ لیکن عوام کو ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں حکومت سے کارکردگی چاہیے ہوتی ہے۔ غداری کے الزامات سے نہ پہلے کبھی کسی کو کچھ ملا ہے نہ آئندہ ملے گا۔ آپ سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ یہ تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے والا شعر سنانا بند کریں، کیونکہ آپ بھائیوں کی لڑائی میں گندی ماں ہی ہو رہی ہے۔
ہمارے سیاستدانوں اور خصوصاً حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین کرنا ہوگی کہ ہم بھارتی میڈیا کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ پاکستان کی سیات کو ڈکٹیٹ کرے۔ کیونکہ اگر آپ اس راہ پر چل پڑے تو پھر اس کا نشانہ آپ خود بھی بنیں گے کیونکہ زبان تو کسی کی بھی پھسل سکتی ہے۔
ذرا ہوش کے ناخن لیں۔ حکومت بچانی ہے تو اس کے لئے کارکردگی پر توجہ دینا ہوگی۔ عوام کو حب الوطنی کا لالی پاپ کسی بھی زمانے میں نہیں بیچا جا سکا، اب بھی نہیں بیچا جا سکے گا۔