اگر اُنہوں نے ابھی بھی بادل نخواستہ کیا ہے کہ اُن کے تعلقات ٹوٹنے کے قریب تھے تو پھر اُنہوں نے پہلے ایسا کیوں نہ کر دیا جب اُن کے تعلقات بے حد خوش گوار تھے؟
اب وہ اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد ہی نہیں کھوچکے، ان کے درمیان تلخی بھی پیدا ہو چکی ہے۔ یہ صورت حال اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اپنے سامنے متبادل امکانات پر غور کرے اور انہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جائے۔
لیکن یہ کچھ کرتے ہوئے عمران خان نے ایک ناقابل یقین کام کر دکھایا ہے۔ اُنہوں نے تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے ”ایک صفحے“ پر ہونے کے بیانیے والا ورق پھاڑ دیا جس کے برتے پر وہ حزب اختلاف کو کم از کم ایک عشرہ تک دبائے رکھنے کی دھمکی دے رہے تھے۔ حزب اختلاف کا جمہوری الائنس دو برسوں میں ایسا کرنے میں ناکام رہا تھا۔
شروع سے ہی ”ایک صفحے“ پر ہونے کا بیانیہ دو عوامل پر مشتمل تھا۔ پہلا عامل اسٹیبلشمنٹ کی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کے قائدین، نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف ادارہ جاتی دشمنی تھی جس کی وجہ سے تیسرے آپشن کی ضرورت پڑی، اور اس کی وجہ سے ہی تحریک انصاف اور عمران خان کو اقتدار ملا۔ دوسراعامل حالات و واقعات پر گرفت رکھنے والے تینوں اہم کھلاڑیوں۔۔۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید اور وزیراعظم عمران خان۔۔۔کے ذاتی اغراض و مقاصد اور مفاد پرستی تھی جس نے ان تینوں کو یک جان کردیا۔
جب سلیکٹر اور سلیکٹڈ کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی نفرت کی وجہ سے ان عوامل کے غبارے سے ہوا نکلنے لگی، یا مرکزی کھلاڑیوں کے درمیان مسابقت یا کشمکش کی فضا بن گئی تو منصوبے کے بے نقاب ہونے کا وقت آن پہنچا۔ پہلے دونوں کھلاڑیوں نے تیسرے کو اقتدار میں لانے کے لیے کوئی خفیہ ہاتھ دکھایا تھا۔ اس کے انعام کے طور پر جنرل باجوہ کو تین سال کی توسیع مل گئی۔ اس کے بعد جنرل فیض حمید نے چیف بن کر عمران خان کو اگلی پانچ سالہ مدت کے لیے کامیاب ہونے میں مدد فراہم کرنا تھی۔
اس دوران یہ بھی توقع کی جارہی تھی کہ عمران خان اچھی گورننس کے ذریعے عوام کا دل جیتیں گے اور یوں اسٹبلشمنٹ کی مہرہ سازی کا جواز نکل آئے گا۔ لیکن سلیکٹڈ کی شرم ناک حد تک ناقص کارکردگی اسٹبلشمنٹ کی ساکھ کو زک پہنچانے لگی یہاں تک کہ وہ عوام کی تنقید کا براہ راست ہدف بن گئی۔ نوا زشریف اور اُن کی بیٹی، مریم نے اس بیانیے میں جان ڈال دی اور اسے آگے بڑھایا۔ اُن کے بیانات نے اسٹبلشمنٹ کی نمائندگی کرنے والے جنرل باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور عمران خان کے تعلقات بگاڑ دیے۔ موخرالذکر دونوں شخصیات الزامات اور تنقید کی زد میں آگئیں کہ اُنہوں نے اسٹبلشمنٹ یا ملک کے مفاد کو پس پشت ڈال کر محض اپنا مفاد دیکھا۔
اب اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا سوایہ کہ وہ اپنی ساکھ کی بحالی کے لیے جنرل باجوہ کے پیچھے کھڑی ہوجائے۔لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ایک طرف کرتے ہوئے عمران خان کو چلتا کردے۔اگلے سال شفاف انتخابات کے انعقاد کے ذریعے پرانی لیکن مقبول عام جماعت، پاکستان مسلم لیگ ن اور اسٹبشلمنٹ کے حامی، نئے وزیر اعظم (شہباز شریف) کو آگے آنے اور ملک کو ہونے والے نقصان کی تلافی کا موقع دے۔
بے شک عمران خان ابھی بھی اس پیش رفت کو سبوتاژ کرسکتے ہیں۔قبل اس کے کہ جنرل باجوہ ان کی رخصت کا اہتمام کریں، عمران خان اُنہیں برطرف کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل فیض کی بجائے کسی سینئر جنرل کو اگلا آرمی چیف نامزد کرسکتے ہیں۔ یہ اقدام ادارے کے اندر پھوٹنے والے معاندانہ جذبات کی حدت کم کرسکتا ہے۔ اگر جنرل باجوہ کا طرز عمل وہی ہوتا ہے جو 1998 ء میں جنرل جہانگیر کرامت کا تھااور وہ خاموشی سے گھر چلے جاتے ہیں تو عمران خان محفوظ اور پرسکون رہیں گے۔ لیکن اگر اسٹبلشمنٹ جنرل باجوہ کو جنرل پرویز مشرف کا 1999 ء کاراستہ اختیارکرنے کی شہ دیتی ہے پھر وہ عمران خان کو انہی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا نواز شریف نے کیا تھا۔ تو کیا عمران اس کا خطرہ مول لیں گے؟ غیر مقبول رہنما اتنی آسانی سے شہادت کا رتبہ حاصل نہیں کرتے۔
جنرل فیض حمید اگلے ماہ پشاور میں گیارویں کور کی کمان سنبھال لیں گے۔ اس کے بعد آئی ایس آئی جنرل باجوہ کے کنٹرول میں آ جائے گی۔ اب جیسا کہ دکھائی دیتا ہے، جنرل فیض پہلے ہی ایجنسی پر کنٹرول کھو چکے ہیں کیوں کہ اس کے اعلیٰ افسران نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے۔ درحقیقت لگنے والے سنگین الزامات نے جنرل فیض حمید کے مستقبل کے امکانات کو شدید زک پہنچائی ہے۔
عمران خان کو گھر بھیجنے کے کئی ایک راستے بنائے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے تیز ترین پارٹی فنڈ کی خورد برد پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ ہوگا جو عمران خان کے ساتھ تحریک انصاف کا بھی دھڑن تختہ کر سکتا ہے۔ اگرچہ فنڈز کی خورد برد کے ثبوت کی بہتات ہے لیکن یہ جواز اتنا ہی بودا ہوگا جتنا اقامہ جس نے نواز شریف کے اقتدار کا خاتمہ کردیا تھا۔ ایک اور طریقہ پنجاب میں حکومت کو تبدیل کرتے ہوئے (چوہدری اور وفاداریاں تبدیل کرنے والے زندہ باد)اسلام آباد میں تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے زوال کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ گھیرے میں آئی ہوئی بے اختیار حکومت خود ہی اسمبلیاں تحلیل کرکے گھر چلی جائے گی۔ اس کے بعد نگران حکومت قائم ہوگی، منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوں گے اور مقبول عوامی جماعت، پاکستان مسلم لیگ ن اقتدار میں آجائے گی۔ وقت آنے پر نئی منتخب شدہ حکومت یا تو جنرل باجوہ کی مدت کو ایک سال اور بڑھا دے گی یا اُنہیں ریٹائرمنٹ لے کر گھر جانے کے لیے محفوظ راستہ دے دیا جائے گا۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ عمران خان خود ہی اسمبلیاں تحلیل کرکے شفاف انتخابات کرا دیں گے۔ یہ جمہوری طریقہ ہے جس میں بحران حل کرنے کے لیے عوام سے رائے لی جاتی ہے۔ عوام فیصلہ کریں کہ کسے منتخب یا مسترد کسے کرنا ہے۔ لیکن عمران خان لڑے بغیر ہار ماننے والوں میں سے نہیں۔ نہ ہی وہ کوئی جمہور پرست ہیں۔ اس لیے ہم آنے والے چند ایک ماہ میں سیاسی موسم کو طوفانی ہوتا دیکھیں گے۔
بدقسمتی اسٹیبلشمنٹ اوراس کے مفاد پرست افسران نے ملک کو اس نہج تک پہنچا دیا۔ اُس وقت عدلیہ کے افسران بھی اُن کے حاشیہ نشین تھے۔ لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ملک کی خاطر، اس درماندہ قوم کی خاطر وہی ادارہ غلطیوں کا ازالہ بھی کر سکتا ہے۔