متنازعہ مذہبی سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا جو تقریباً ایک ماہ پر محیط تھا۔ وہ سرکاری و ریاستی مہمان کے طور پر یہاں مدعو کیے گئے تھے۔ پاکستان میں ان کے لاکھوں پرستار موجود ہیں جو بڑی تعداد میں ان کے مناظروں میں شریک ہوئے اور ایک ایمان افروز ماحول بنتا دیکھا گیا۔
ڈاکٹر نائیک بھارتی نژاد ہیں لیکن منی لانڈرنگ جیسے جرائم میں ملوث ہونے کے باعث انہیں ملک سے بے دخل کر دیا گیا ہے اور وہ ملائشیا کے سابق سربراہ مہاتیر محمد کے دور اقتدار سے ملائشیا میں مقیم ہیں۔ ان پر بھارت میں مذہبی انتشار پھیلانے کا بھی الزام رہا ہے۔ وہ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔
یاد رہے ڈاکٹر ذاکر نائیک جنوبی افریقہ کے نصف بھارتی نژاد خود ساختہ مبلغ احمد دیدات کے پیروکار رہے ہیں۔ احمد دیدات تقابلی مذاہب کے حوالے سی ایوینجلیکل چرچ کے ہمراہ کام کیا کرتے تھے۔ ان کی کتب، وڈیوز اور لیکچرز کے آڈیو ٹیپ دنیا بھر میں شہرت کے حامل رہے۔ ذاکر نائیک احمد دیدات کے پیروکار تھے اور احمد دیدات نے ایک بار ذاکر نائیک کی 'فہم و فراست' کے حوالے سے کہا تھا کہ 'جو میں 40 سال میں کر سکا تم نے 4 برس میں پا لیا'۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک 30 ستمبر کو اسلام آباد پہنچے جہاں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا گیا جو ملکی و غیر ملکی میڈیا کی کوریج میں رہا۔ ایسی وڈیوذ بھی اس دوران نظر آئیں جس میں وہ لشکر طیبہ کے اراکین سے بھی ملاقات کرتے ہوئے نظر آئے۔ ان کے استقبال پر معتقدین ان کا ماتھا چومتے بھی سوشل میڈیا پر دیکھے گئے۔ اس سے قبل ڈاکٹر نائیک 1991 میں پہلی بار پاکستان آئے تھے اور ڈاکٹر اسرار احمد سے ملاقات کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے ان سے ملاقات کے بعد یہ بھی کہا تھا کہ 'یا ڈاکٹر بن جاؤ یا مبلغ، کوئی ایک راستہ چنو'۔
اب جبکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی واپسی کا وقت آن پہنچا ہے اور وہ دوبارہ ملائشیا روانہ ہوں گے تو ایک نظر اس پہ ڈالی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے عوامی، سماجی، اقلیتی اور مذہبی حلقے ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اسلام آباد، کراچی اور لاہور کے دورے کیے جہاں لاکھوں افراد پر مشتمل مذہبی اجتماعات کی کوریج کئی ہفتوں سے سوشل میڈیا اور اخبارات میں سرخیوں میں رہی ہے۔
خواتین، سماج، مذہب اور اقلیتوں کے حوالے سے ان کے بیانات اکثر ہی تنگ نظری کا تاثر دیتے ملے۔ سینیئر صحافی و نقاد محمد حنیف نے اپنے ایک وی لاگ میں ڈاکٹر صاحب کے دورہ پاکستان پر دلچسپ روشنی ڈالی اور ڈاکٹر ذاکر کو پاکستانی مولوی حضرات کے فتوؤں کی سنجیدگی سے بھی آگاہ کیا۔ محمد حنیف کا ماننا تھا کہ 'یوں تو ہمارے ملکی خزانے خالی رہتے ہیں لیکن پاکستان میں مولویوں اور مفتیوں کے لیے کوئی گھاٹا نہیں، ہمارے ہاں ہر مزاج کے مولوی مل جائیں گے اور اب جب حکومت کو لگا کہ ہم عوام کو روٹی اور تعلیم نہیں دے پا رہے تو اب انہیں ایک انٹرنیشنل مولوی دے دیا جائے، اور یوں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ایک ماہ کے لیے پاکستان کی دعوت دے دی، ذاکر نائیک ایک تو کوٹ پینٹ پہنتے ہیں اور دوسرے کافروں کو مسلمان کر لیتے ہیں اور سنا ہے کہ لاکھوں کافر مسلمان کر چکے ہیں۔ اور ان کے بقول ہندوستان سے نکالے جانے کی وجہ بھی ہندوؤں کو مسلمان کرنا ہی تھا'۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بیانات، پاکستان میں مجمعوں سے خطاب کے دوران مختلف درجوں پہ تنازعوں کو جنم دیتے ملتے ہیں، چاہے وہ اسلام آباد میں کسی یتیم خانے میں سر تا پیر ڈھکی بچیوں کو ایوارڈ دینے کا معاملہ ہو، لاہور میں اداکارہ یشمہ گل کے سوال کا جواب ہو، کرسچن نوجوانوں کا قرآن کو سمجھنے کی کوشش میں استفسار یا پلوشہ مروت کا مدرسوں میں طلبہ سے جنسی زیادتی کا سوال ہو۔ ڈاکٹر ذاکر سبھی موقعوں پر ناصرف جزبز ہوتے نظر آئے بلکہ تنقید کا بھی بھرپور نشانہ بنے۔ سماجی و عوامی حلقوں میں ان کے بیانات پر بات کی گئی۔
ڈرامہ نگار اور ناقد محترمہ نور الہدیٰ شاہ صاحبہ بھی ڈاکٹر ذاکر کے اس دورے کو ایک مبصر کی نظر سے دیکھتی رہی ہیں اور انہوں نے کہا کہ 'ذاکر نائیک کو پاکستان مدعو کرنا ریاست کا ایک ایسا اقدام تھا کہ جس سے وہ عوام کی توجہ ملکی صورت حال سے موڑ کے مذہب کی جانب لے جائیں۔ یہ ریاست کا 75 سالہ ٹوٹکا ہے کہ ملکی حالات سے عوام کو کیسے ڈسٹریکٹ کیا جائے اور مذہب کی دکان لگا لی جائے۔ لیکن اس بار ذاکر نائیک کے لاکھوں افراد کے جمگھٹوں میں ایسے نوجوان شامل تھے جو چبھتے ہوئے سوال پوچھتے ملے جن کے جوابات میں ذاکر نائیک کو تذبذب کا شکار اور لاجواب ہوتے دیکھا گیا'۔ بقول نور الہدیٰ شاہ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے اور یہاں کسی ایسے شعبدہ باز کو مدعو کرنا بے ضرورت اقدام تھا لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ریاست کا مذہب کارڈ بے نقاب ہوا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پاکستان آمد جہاں کئی لاکھ مسلمانوں کو روح پرور لگی، وہیں مسیحی برادری کے مختلف نمائندوں سے گفتگو کے بعد پتہ چلا کہ وہ بھی توقع کر رہے تھے کہ ڈاکٹر نائیک ان کے حوالے سے بھی متوازن مزاج رکھیں گے۔
لیکن ڈاکٹر نائیک کو بقول صحافی سبوخ سید عالم دین سمجھنا غلط ہو گا، وہ مناظرے کی تھیوری پہ یقین رکھتے ہیں اور وہی انداز ان کے ہر پنڈال میں جھلکتا ملا۔ لیکن سبوخ سید جو ان کے ساتھ ٹی وی پروگرام بھی ریکارڈ کرا چکے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نائیک کو اگر ان کی اردو پہ رعایت دی جائے تو بھی غلط نہ ہو گا، مثال کے طور پہ بادشاہی مسجد میں جب وہ مسیحی برادری کے ساتھ مناظرے میں مبتلا تھے تو 'سینیئر' کو 'مرد کے بچے' سے تشبیہ دیتے ہوئے بولے؛ 'تم میں سے کوئی مرد کا بچہ ہو تو اسے لے کر آؤ'۔ یہاں مرد کے بچے سے ان کی مراد سینیئر یا تجربہ کار کی تھی۔ کرسچن برادری کے نمائندوں کا ماننا تھا کہ وہ اس وقت مختلف مذہبی سانحوں کی وجہ سے دل برداشتہ ہیں اور اس عدم برداشت کے ماحول میں ڈاکٹر نائیک جیسے مناظرہ باز کو سرکاری مہمان بنانے پر حیران اور تشویش میں مبتلا ہیں۔
مسیحی برادری کے ایک اہم بشپ آزاد مارشل نے صدر پاکستان کو ڈاکڑ نائیک کے پاکستان دورے سے متعلق ایک خط لکھا جس میں یہ سوال بھی پوچھا گیا ہے کہ ' ڈاکٹر ذاکر نائیک کو کیوں اور کس کی ایما پہ مدعو کیا گیا؟'
اس مضمون کے لیے میں نے جمعیت علمائے اسلام سے بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اس دورے سے متعلق رائے جاننے کی کوشش کی لیکن ان کے ترجمان اسلم غوری صاحب نے ناسازی طبع کے باعث جواب دینے سے معذرت کر لی۔
اسلام آباد کے سویٹ ہوم نامی یتیم خانے کی انتظامیہ نے جناب ذاکر نائیک کو اپنے ادارے میں بچوں کو اسناد تقسیم کرنے کے لیے جب مدعو کیا تو ذاکر نائیک صاحب نے باپردہ ٹین ایج بچیوں میں اسناد تقسیم کرنے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ 'یہ نامحرم ہیں' اور سٹیج سے اتر کر چلے گئے۔ ایک عالمی شہرت یافتہ مبلغ کے اس رویے نے پاکستان کیا، دنیا بھر کے میڈیا کو خود پہ تنقید کا موقع دیا اور سبھی یہ سوال کرتے ملے کہ 'کیا ذاکر نائیک کو پہلے سے معلوم نہیں تھا کہ سویٹ ہوم میں یتیم بچے اور بچیاں دونوں مقیم ہوتے ہیں؟ اور کیا کسی بھی مذہب کے مبلغ کو اتنا جارحانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ ہر دین انسانیت کی بنیاد پر پروان چڑھتا رہا ہے، تنگ دلی اور تنگ نظری کسی نظریے کو آگے بڑھنے نہیں دیتے'۔
دوسری جانب جناب خورشید ندیم کا ماننا تھا کہ 'میں اس وقت ڈاکٹر نائیک کے دورے کی حکمت نہیں سمجھ سکا کہ ریاست یا لوگ اس دورے سے کیا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر نائیک مناظرے کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن جب ہم سماجی سطح پہ بات کر رہے ہوں تو ہماری گفتگو میں اعتدال لازمی ہے۔ لیکن ڈاکٹر نائیک کی آمد سے ہمارے ملک میں مذہبی سطح پہ مختلف مکاتب فکر کے درمیان تلخیاں بڑھ گئیں'۔
ذاکر نائیک کے دورہ پاکستان کو صحافی سبوخ سید 'سموک سکرین' سے تشبیہ دیتے ہیں، وہ سموک سکرین 'جس پر ریاست نے دھواں' چھوڑنے کے لیے ذاکر نائیک کو مدعو کیا۔ اور عوام اپنے مسائل بھول کر ذاکر نائیک کو سننے، سمجھنے اور تنقید کرنے میں مصروف ہو گئے۔
صحافی سبوخ سید کے مطابق، جہاں تک ڈاکٹر نائیک کی تشریح دین کا تعلق ہے تو وہ 'عالم دین نہیں، فرسودہ انداز میں مذہب کی تشریح کرتے ہیں، ایک مناظرہ باز ہیں۔ لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان میں ان کے لاکھوں ماننے والے بھی موجود ہیں'۔ ان میں بڑی تعداد میں ڈاکٹر اسرار احمد کے سکول آف تھاٹ کے ماننے والے افراد کی ہے۔
اس تحریر کے دوران مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں سے بات چیت سے تاثر یہی ملا کہ ڈاکٹر نائیک دلائل کچھ بھی ہوں، خود کو درست ثابت کرنے پہ ہی مانتے ہیں اور یہی انداز ان کے مجمعوں میں بھی دیکھا جاتا ہے جو تنقید کا سبب بنتا ہے۔ چاہے پلوشہ مروت کے سوال کا جواب ہو یا کرسچن نوجوانوں کو مسلمان کرنا؛ وہ ایک ہی ٹریک پر چلتے ملے جس پر انہیں رکنا یا جھکنا منظور نہیں تھا۔
خواتین کے حوالے سے ان کے بیانات پر خواتین کی حقوق سے وابستہ تنظیموں نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ ورکنگ اور سنگل خواتین کے بابت جو کچھ ذاکر نائیک کہتے رہے وہ ان کی دینی فہم و فراست پہ کئی سوالیہ نشان لگاتا ہے۔