غدار محسن داوڑ اور علی وزیر، لٹریچر فیسٹیول میں

12:56 PM, 30 Sep, 2019

کنور نعیم
28 اور 29 ستمبر 2019، یہ دو دن چھٹے اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کرنے کے لیے مارگلہ ہوٹل میں گزرے۔ اس طرح کی تقریبات کا ایک فائدہ جو مجھے محسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنی بہت سی پسندیدہ شخصیات سے انسان ایک چھت تلے نہ صرف مل سکتا ہے بلکہ ان کی گفتگو کو با نفس نفیس سن بھی سکتا ہے۔ اور یہ شخصیات کسی ایک مخصوص شعبے سے نہیں ہوتیں، بلکہ سیاست، ادب، فلم، موسیقی اور تعلیم کے ساتھ ساتھ کئی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا ایک سمندر یہاں ہوتا ہے۔ اس بار، عارفہ سیدہ زہرہ، حسینہ معین، استاد حامد علی سمیت کئی ایک شخصیات سے ملنے کا موقعہ ملا اور یہ تمام ملاقاتیں بہت زبردست اور سیر حاصل رہیں۔ لیکن سب سے حیران کن لمحہ آخری دن، یعنی 29 ستمبر کو آیا۔

شام پونے پانچ سے پونے چھ بجے والا سیشن جب ختم ہوا تو محسن داوڑ اور علی وزیر کو وہاں موجود پایا۔ ان کو دیکھ کر لوگوں کا ایک ہجوم ان کی طرف امڈ آیا اور اس سے بھی زیادہ حیرانی اس بات پر ہوئی کہ ہجوم میں موجود کسی ایک شخص نے بھی نفرت اور ناپسندیدگی کا اظہار نہ کیا۔ کوئی مصافحہ کرنا چاہتا تھا، کوئی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب تھا۔ ایک موقعے پر ایسا بھی لگا کہ شاید علی وزیر اور محسن داوڑ لٹریچر فیسٹیول میں نہیں آئے بلکہ لٹریچر فیسٹیول ان سے ملنے آیا ہے۔

جس وقت لوگ محسن داوڑ اور علی وزیر کو گھیرے ہوئے تھے، ٹھیک اسی وقت مارگلہ ہال میں ہمایوں سعید، عثمان مختار، خالد سعید بٹ، اریبہ علوی اور راجو جمیل صاحب بھی موجود تھے لیکن۔۔۔۔ لوگوں کے اس پاگل پن کو دیکھ کر ایک چیز اب تک سمجھ نہیں آئی۔ کیا یہ دونوں واقعی غدار ہیں؟ اگر واقعی ہیں، تو کیا وہ تمام لوگ بھی غدار تو نہیں تھے جو ہجوم بنائے کھڑے تھے؟

راہی فدائی کا شعر ہے کہ:

حیرت زدہ ہے راہی دریا سے احتجاجاً
معصوم قطرہ قطرہ غدار ہو رہا ہے

مزیدخبریں