شام پونے پانچ سے پونے چھ بجے والا سیشن جب ختم ہوا تو محسن داوڑ اور علی وزیر کو وہاں موجود پایا۔ ان کو دیکھ کر لوگوں کا ایک ہجوم ان کی طرف امڈ آیا اور اس سے بھی زیادہ حیرانی اس بات پر ہوئی کہ ہجوم میں موجود کسی ایک شخص نے بھی نفرت اور ناپسندیدگی کا اظہار نہ کیا۔ کوئی مصافحہ کرنا چاہتا تھا، کوئی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب تھا۔ ایک موقعے پر ایسا بھی لگا کہ شاید علی وزیر اور محسن داوڑ لٹریچر فیسٹیول میں نہیں آئے بلکہ لٹریچر فیسٹیول ان سے ملنے آیا ہے۔
جس وقت لوگ محسن داوڑ اور علی وزیر کو گھیرے ہوئے تھے، ٹھیک اسی وقت مارگلہ ہال میں ہمایوں سعید، عثمان مختار، خالد سعید بٹ، اریبہ علوی اور راجو جمیل صاحب بھی موجود تھے لیکن۔۔۔۔ لوگوں کے اس پاگل پن کو دیکھ کر ایک چیز اب تک سمجھ نہیں آئی۔ کیا یہ دونوں واقعی غدار ہیں؟ اگر واقعی ہیں، تو کیا وہ تمام لوگ بھی غدار تو نہیں تھے جو ہجوم بنائے کھڑے تھے؟
راہی فدائی کا شعر ہے کہ:
حیرت زدہ ہے راہی دریا سے احتجاجاً
معصوم قطرہ قطرہ غدار ہو رہا ہے