اپوزیشن کے نئے سیاسی اتحاد پاکستان جمہوری تحریک (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کی سربراہی کیلئے مولانا فضل الرحمٰن متحرک ہو گئے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق کے مطابق میاں نواز شریف اور مریم نواز نے اگرچہ 'پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ' (پی ڈی ایم) کی کمان مولانا فضل الرحمٰن کو سونپ دیئے جانے کی حمایت کی یقین دہانی کرادی ہے جبکہ شہباز شریف کے علاوہ پیپلز پارٹی اور "اے این پی" سمیت بعض لبرل جماعتیں مولانا کو سربراہی دینے پر رضا مند نہیں ہیں ۔ اس ضمن میں بالخصوص پیپلزپارٹی کے قائد آصف زرداری کا کہنا ہے "ویسٹ کو ایک داڑھی والا چہرہ قبول نہیں ہوگا" مطلب امریکہ سمیت اہم مغربی طاقتوں کو پاکستان میں موجودہ سیٹ اپ کے مخالف اور" تبدیلی" کی تحریک کی حمایت کے لئے ایک مولوی کی قیادت منظور نہیں ہوگی۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور اپوزیشن کی لبرل جماعتوں کو باور کروایا گیا ہے کہ خدشہ ہے مولانا فضل الرحمٰن بعد میں کسی مرحلے پر اس تحریک کو اسی طرح مذہبی تحریک میں تبدیل کردیں گے جس طرح 1977 کی بھٹو حکومت مخالف تحریک کو بعد میں "تحریک نظام مصطفیٰ" کا نام دے کر ایک مذہبی تحریک میں تبدیل کر دیا گیا تھا یا پھر جس طرح 16 مارچ 2009 کو وکلاء کی ملک گیر عدلیہ بحالی تحریک کا دوسرا مرحلہ نتیجہ خیز بنانے کے لئے نوازشریف کی قیادت میں شروع کرتے ہوئے اسے ایک سیاسی تحریک میں بدل دیا گیا تھا۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو دوبئی روانہ ہوگئے ہیں جہاں سے وہ کچھ عرصہ کے لئے لندن چلے جائیں گے اور لندن میں اپنے قیام کے دوران امکان ہے وہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد ، سابق وزیراعظم نواز شریف سے اھم ملاقات کریں گے ، ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو کا یہ غیرملکی دورہ اور ان کا بیرون ملک قیام قدرے طویل ہوگا اس لئے امکان ہے وہ متحدہ اپوزیشن یعنی "پی ڈی ایم" کے 11 اکتوبر کو کوئٹہ میں ہونے والے پہلے جلسہ عام سے خطاب کے لئے موجود نہ ہوں جبکہ آصف زرداری خود بھی عوامی جلسوں سے خطاب نہیں کریں گے کیونکہ انہوں نے احتجاجی تحریک میں پارٹی قیادت کا کردار بلاول بھٹو کو سونپ دیا ہے .
ذرائع کے مطابق "پی ڈی ایم " کے روح رواں مولانا فضل الرحمٰن نے پیر کے روز نواز شریف سے فون پر رابطہ کر کے لیگی اراکین اسمبلی کے استعفے طلب کر لیے ہیں ، انہوں نے تقاضہ کیا کہ 'اے پی سی' کے فیصلے کے مطابق مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے تمام اراکین اسمبلی کے تحریری استعفے ان کے سپرد کر دیئے جائیں جس پر نواز شریف نے انہیں اپنی پارٹی کے کلاس بی ارکان کے استعفے بھجوا دینے کی یقین دہانی کروا دی اور کہا ہے " مولانا ، استعفے آپ کو مل جائیں گے ، آپ کام شروع کریں۔ "جلا وطن" سابق وزیراعظم نواز شریف نے مشورے کیلئے اہم پارٹی رہنماؤں کو لندن طلب کر لیا ہے ، مسلم لیگ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ "جلاوطن" سابق وزیراعظم لندن میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب بھی کریں گے اور اس پریس کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان سے بھی مسلم لیگ کے ہمخیال صحافیوں کو مدعو کیا جائے گا ۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف کی خصوصی ہدایت پر ایسے مخصوص صحافیوں اور اینکرز کے ویزوں اور ہوائی جہاز کی ٹکٹوں کا بند و بست کیا جارہا ہے۔
دوسری طرف نواز شریف نے منگل کو لاہور میں ہونے والے پارٹی ہائی کمان کے ہنگامی اجلاس سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرنا تھا جو آخری لمحوں میں منسوخ کر دیا گیا ، معلوم ہوا ہے کہ پارٹی صدر شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد "نون لیگ" کی اعلیٰ قیادت کو ان کی جگہ قائم مقام صدر کی نامزدگی میں مشکلات کا سامنا ہے . ذرائع کے مطابق پارٹی قائد نواز شریف پاکستان میں پارٹی کی قیادت کے لئے اپنی چوائس ، لیڈی نائب صدر مریم نواز کے لئے پاکستان میں مرکزی پارٹی رہنماؤں کی تائید حاصل نہیں کرسکے جس پر نواز شریف نے منگل کو اپنے خطاب کا پروگرام بھی منسوخ کیا۔
خُود مریم نواز نے بھی پیر کو پریس کانفرنس سے اپنے خطاب کے دوران یہ کہتے ہوئے اس کی تصدیق کردی "نواز شریف اور میرے بیانیہ کابوجھ اٹھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں"۔ ذرائع کا کہنا ہے سوموار کو شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد ہونے والی لیگی قیادت کی ہنگامی پریس کانفرنس سے صرف سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے خطاب کرنا تھا لیکن پاکستان میں پارٹی قیادت سنبھالنے کے لئے بے تاب مریم نواز نے عین آخری لمحوں میں خود خطاب کرنے کا فیصلہ کیا تاہم نواز شریف نے انہیں ہدایت کی کہ پہلے وہ احسن اقبال کو بولنے دیں کہ وہ ان سے سینئر ہیں .
دریں اثناء ، ذرائع کے مطابق پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی کے حوالے سے ملک کی سیاسی صورتحال پر اثر انداز ہونے والی ایک سوپر عالمی طاقت اور 3 اہم خلیجی ممالک سمیت اسلام آباد میں 4 غیر ملکی سفارت خانے متحدہ اپوزیشن یعنی "پی ڈی ایم" کی خفیہ مگر "ٹھوس" حمائت کے لئے سرگرم ہوگئے ہیں جس پر وزیراعظم عمران خان کو "سرکاری مولوی" کی شہرت رکھنے والے ایک مذہبی رہنما کو فوری طور پر "سرکاری سرپرستی" میں لے لینے کی "ایڈوانس" دی گئی جس پر اس مذہبی رہنما کو گزشتہ ہفتے ہنگامی طور پر اسلام آباد بلوا کر وزیراعظم عمران خان سے اس کی ملاقات کروائی گئی اور ایک روز قبل پرائم منسٹر ہاؤس کی طرف سے اس مذہبی رہنما کو وزیر اعظم کا اعزازی خصوصی نمائندہ برائے مذہبی ہم آہنگی مقرر کرنے کا اعلان کر دیا گیا ، تاکہ وہ پرنس محمد بن سلمان سمیت حکمران سعودی شاہی خاندان کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو موجودہ سیٹ اپ کے حق میں استعمال میں لاسکے . واضح رہے کہ یہ مذہبی رہنما مولانا فضل الرحمن ہی کے دیوبند مسلک سے تعلق رکھتے ہوئے ان کے مخالف "سمیع الحق گروپ" کی پنجاب شاخ کے رہنما رہ چکے ہیں۔
ادھر مبصرین کا خیال ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اور مؤثر مذہبی سیاسی جماعت ، جے یو آئی (ف) کے سربراہ کی "پی ڈی ایم" کی سربراہی میں غیرمعمولی دلچسپی کی وجہ یہ بھی ہے کہ متحدہ اپوزیشن کی موجودہ سیٹ اپ کے خلاف تحریک کو" جاندار" اورنتیجہ خیز بنانے کی غرض سے بعض "دوست" بالخصوص عرب ممالک کی طرف سے بھاری فنڈز فراہم کئے جانے کا امکان ہے۔