عالمی احتجاج کی روح رواں سویڈن کی 17 سالہ کلائیمیٹ ایکٹوسٹ گریٹا تنمبرگ نے اس احتجاج کو گلوبل ڈے آف کلائمیٹ ایکشن سے منسوب کیا، اور اپنے ملک سویڈن میں کویڈ 19 کے ایس او پیز کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑا مجمع اکھٹا کرنے سے اجتناب کیا۔ لیکن اسکے باوجود مختلف ملکوں میں نوجوانوں نے ایس او پیز کی ریڈ لائین کراس کرلی اور احتجاج کیلئےاکھٹے ہوئے۔ سکول کے بچوں اور ان کے والدین سمیت لوگوں نے نہ صرف گلیوں، سڑکوں بلکہ آن لائن بھی اس مظاہرے میں شرکت کی اورپالیسی سازوں کو ماحولیاتی بحران پر فوری عمل درامد کا واضح پیغام دے دیا۔
کویڈ19 کی وجہ سے کلائمیٹ ایکٹوسٹس نے گھروں، چوراہوں اور باہر جگہوں سے منفرد انداز میں اس احتجاج میں حصہ لیا۔ نوجوانوں نےپلے کارڈ اور بینرزپر آب و ہوا کے بحران کو مزید تقویت نہ دو، ہم جل رہےہیں، کلائیمیٹ پرایکٹنگ نہیں ایکشن، اینف ازاینف وغیرہ جیسے سخت الفاظ لکھے گئے تھے۔
عالمی احتجاج کی ایک جھلک پشاورشہرمیں بھی دیکھی گئی، نوجوان، خواتین،بچوں اور سماجی کارکن کلائیمیٹ پر ایکشن کے حوالے سے نہ صرف شہر میں احتجاج کرتے ہوئے نظر آئے بلکہ آگہی کی سرگرمیوں میں بھی مشغول رہے، پختون خواتین کی معاشی، سماجی اور سیاسی حقوق کیلئے متحرک واک نامی تحریک کی جانب سے ایک سیمینار بھی منقعد کیا گیا۔ پشاورمیں ان لائٹن لیب نامی ادارہ جو تعلیم، ٹیکنالوجی اور ہنرکے زریعے معاشی اور سماجی ترقی کیلئے کوشاں ہے نے بھی گلوبل کلائمیٹ سٹرائیک میں حصہ لیا۔ ان لائٹن لیب کی شریک بانی اورایگریکلچر یونیورسٹی میں فصلوں اور پیداور پر کلائمیٹ چینج کے اثرات کے حوالے سے ریسرچ کرنے والی نادیہ خان نے بتایا کہ پاکستان میں کلائمیٹ چینج کے زیادہ اثرات زرعی معیشت پر ہو رہے ہیں، اور ملک میں ماحولیاتی بحران کی وجہ سےکمزور طبقے متاثر ہو رہے ہیں۔نادیہ خان نے کہا کہ ملک کی 67 فیصد خواتین زراعت سے وابستہ ہیں اور مردوں کے مقابلے میں ماحول کے ساتھ زیادہ منسلک ہیں۔ لیکن یہاں اس حقیقت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ نادیہ نے کہا کہ کلائمیٹ چینج کے حوالے بنائی گئی حکومتی پالیسیاں مبہم ہیں، خیبر پختونخوا کلائیمیٹ چینج پالیسی کی پوزیشن ابھی تک واضح نہیں ہوئی۔
اگر حکومت اور ماحول سے وابستہ افراد دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ خیبر پختونخوا میں ماحولیاتی تبدیلی کے سب زیادہ اثرات زرعی معیشت پر پڑ رہے ہیں اور زراعت سے کسان اور کمزور طبقے ہی منسلک ہے تو پھر کیوں اُن کی رائے کو کلائیمیٹ چینج کی نئی پالیسی میں نظر انداز کیا جا رہاہے؟
گلوبل یوتھ کلائمیٹ سٹرائیک میں نوجوانوں کا اپنے رہنماؤں کو آب و ہوا کے بحران پر"اداکاری نہیں ایکشن" کا مطلب شاید یہی ہے کہ پائیدارترقی کیلئے مظبوط پالیسیاں بنائی جائے۔ 2015 سے لیکر ابتک کلائمیٹ ایکٹوسٹس کے احتجاج کا محوربھی پالیسی چینج ہی ہے۔ گریٹا تنمبرگ کی جانب سے16 ستمبر 2020 کو نوجوانوں، سائینسدانوں اور سماجی کارکنوں کی رضامندی سے ایک کھلا خط یورپی یونین کے تمام رہنماؤں کوبیجھا گیا۔ خط کے ابتدا میں یہی تنبیہہ دی گئی تھی کہ تمام رہنما یہ تاثر دینا چھوڑ دیں کہ آپ لوگ آب و ہوا اور ماحولیاتی بحران کو بحران تصور کیے بغیر حل کرنے والے ہیں۔ یاد رہے2020میں کویڈ19 کو مد نظر رکھتے ہوئے کلائیمیٹ ایکٹوسٹس کی جانب سے دنیا کے تمام ممالک کو کھلا خط لکھنے کا سلسلہ شورع ہوا تھا۔
25 ستمبر کے گلوبل یوتھ سٹرائیک فار کلائمیٹ میں شریک پشاور کے ایک سماجی کارکن شفیق گیگیانی کا بھی ماننا ہے کہ آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کیلئے واحد حل پالیسی تبدیل کرنا ہے۔ گیگیانی نے کہا کہ پاکستان کم کاربن پرڈیوس کرنے والہ ملک ہے، لیکن کلائمیٹ چینج کی وجہ سے زیادہ متاثرہ ملکوں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جسکی بنیا دی وجہ یہاں کمزور پالیسیاں ہی ہے۔ گیگیانی نے مزید کہا کہ گلوبل کلائمیٹ ایکٹوسٹس جب پالیسی تبدیل کرنے کی بات کرتے ہیں تواس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم کلائمیٹ کیلئے صرف ایک پالیسی بنائی جائے بلکہ اسکا مطلب ملک میں موجود تمام پالیسیوں کو بدلنا ہے۔