وفاقی کابینہ کی جانب سے اربوں روپے کے فنڈز بغیر پی سی ون کی منظوری پر پارلیمانی کمیٹی برہم

05:41 PM, 30 Sep, 2020

عبداللہ مومند
 

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی ترقی و اصلات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر آغا شاہ زیب درانی کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔کمیٹی اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے کابینہ حکام نے بتایا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کیلئے الگ سے سٹاف رکھا جارہا ہے درخواستیں موصول ہو چکی ہیں جنہیں 48 گھنٹوں میں شارٹ لسٹ کر لیا جائے گا۔ کابینہ حکام نے بتایا کہ صوبوں میں وفاق کے ترقیاتی کام پی ڈبلیو ڈی کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔

اب ترقیاتی کام اجتماعی لوگوں کی ڈیمانڈ کے مطابق علاقے کی ضرورت کے مد نظر رکھتے ہوئے کرائے جاتے ہیں۔ تین صوبوں میں وفاق فنڈ فراہم کر رہا ہے جبکہ صوبہ سندھ کو وزارت پیٹرولیم اور وزارت پاور کے ذریعے مکمل کراوئے جا رہے ہیں۔رکن کمیٹی سینیٹر ہدایت اللہ کے سوال کے جواب میں کابینہ حکام نے بتایا کہ باجوڑ میں 100 فیصد پراگرس ہو چکی ہے جس میں 88 فیصد سیونگ اور باقی فزیکل پراگرس ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر آغا شاہ زیب درانی نے سوال کیا کہ بلوچستان کیلئے کتنی سکیمیں اور کتنے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ جس پر حکام نے بتایا کہ بلوچستان کیلئے 913 بلین روپے رکھے گئے ہیں یہ رقم کابینہ نے صوبوں کو مہیا کی ہیں اب صوبوں نے اس رقم سے کون سی سکیمیں مکمل کی ہیں اس کا ہمارے پاس ریکارڈ نہیں۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ سکیمیوں اور پی سی ون کے بغیر فنڈ ز کیسے ریلیز ہو جاتے ہیں۔جس پر حکام نے بتایا کہ یہ پراسس سٹیرنگ کمیٹی کرتی ہے ہم نے صرف عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔وفاقی سیکرٹری منصوبہ بندی سید وقار الحسن نے کمیٹی کو بتایا کہ صوبوں کو کتنی رقم دینی ہے اکھٹی رقم بھیجی جاتی ہے۔اس رقم سے وہ اپنی سکیمیں منظور کرتے ہیں اور جو رقم بچ جاتی ہے اسے اگلے سال سکیموں پر خرچ کیاجاتا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جب تک سکیمیں منظور نہ ہو ں آپ فنڈ کیسے ریلیز کر سکتے ہیں۔جس پر سیکرٹری نے بتایا کہ پہلے سکیم منظور ہو گی اس کے بعد فنڈ کی منظوری دی جائے گی۔ بہت سی سکیمیں پی ڈبلیو ڈی کے ذریعے مکمل کرائی جاتی ہیں۔

اراکین کمیٹی کے سوال کے جواب میں حکام نے بتایا کہ ای سی سی کی منظوری کے بعد اس سال 8 بلین روپے کی منظوری دی گئی ہے۔جس پر کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ آئندہ صوبوں کو ایڈوانس رقم نہ بھیجی جائے پہلے ان کی سکیمیں لی جائیں۔کمیٹی نے کہا کہ فیزیکل پراگرس کیلئے صوبوں کی پلاننگ کمیٹی اس بات کا سریٹفکیٹ جاری کرے کہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا ہے۔کمیٹی نے کہا کہ سٹیرنگ کمیٹی میں ممبران قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ اراکین سینیٹ کی نمائندگی کو بھی یقینی بنایا جائے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر آغا شاہ زیب درانی نے کہا کہ جب تک اسائمنٹ اتھارتی کا اکاؤنٹ نہیں کھلے گا اس وقت رقم وفاق ریلیز نہیں کرے گا۔ جس پر حکام نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ اس معاملے کو سٹیرنگ کمیٹی میں اٹھائیں گے کہ جو پراجیکٹ کے بارے میں جواب نہیں دے گا آئندہ اسے رقم ریلیز نہ کی جائے۔سینیٹر کہدہ بابر نے سوال کیاکہ جب نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کام کر رہا ہے تو عوام سے بجلی کے بلوں کی مد میں سرچارج کیوں وصول کیا جارہا ہے۔جس پر نیلم جہلم پراجیکٹ کے حکام نے بتایا کہ نیلم جہلم کی تکمیل کے بعد 2018 کے بعد8 بلین روپے بنتے ہیں جو ہم واپس کرنے کو تیار ہیں۔نیلم جہلم منصوبے کے حوالے سے چیف ایگزیکٹو نیلم جہلم منصوبے نے بتایا کہ اس منصوبے کی استعداد 969 میگاواٹ ہے اوراس کا افتتاح13 اپریل2018 کو کیا گیا ہے۔500 کے وی کی ٹرانسمیشن لائن کو نیشنل گرڈ کے ساتھ ملا دیا گیا ہے اوربجلی کی ترسیل جاری ہے۔چیف ایگزیکٹو نے بتایا کہ منصوبے پر 99 فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے تاہم کرونا وباکے پھیلاؤ کی وجہ سے بعض کام تاخیر کا شکار ہوا ہے جو کہ جلد مکمل کرلیا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی کو منصوبے کیلئے لیے گئے غیر ملکی قرضوں اور فنڈنگ کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا۔

چیئرمین کمیٹی نے نیلم جہلم کے متاثرین کو متبادل گھر دینے اور ان کی معاونت کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں سوال کیا۔ جس پر چیف ایگزیکٹو نے بتایا کہ دسمبر2018 میں ایک کھلی کچہری منعقد کی گئی جس میں متاثرین کے ساتھ تین مرلے کے پلاٹ اور اڑھائی لاکھ روپے پر معاہدہ طے پایا تاہم بعد میں یہ معاوضہ 5 لاکھ روپے کر دیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کو ٹیرف کے بارے میں تفصیلی آگاہ کیا گیا۔ سینیٹر کہدہ بابر نے گوادر میں بجلی کے منصوبے میں تاخیر کا معاملہ بھی اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ چائنیز کمپنی توانائی کے منصوبے کیلئے سنجیدہ ہے تاہم ہمارے محکمے سست روی سے کام لے رہے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے گوادر میں بجلی کے منصوبوں کی تفصیل طلب کر لی اور کہا کہ گوادر کے لوگ مشکل کا شکار ہیں اور ان کیلئے آسانی پیدا کی جائے۔

چیئرمین سینیٹ کی جانب سے کمیٹی کو کوہاٹ میں بجلی کے معطل منصوبوں کے بارے میں بجھوائے گئے سوال کے جواب میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ نمبر آف سکیم زیادہ ہونے کی وجہ سے بہت ساری سکیمیں ادھوری پڑی ہیں۔ اگر یہ سکیمیں کم کر دی جائیں تو ادھورے منصوبے مکمل کیے جا سکتے ہیں۔ حکام کے مطابق اپریل2017 کو 526.6 ملین روپے سے کوہاٹ، مانسہرہ، ایبٹ آباد میں خصوصی فیڈرل پروگرام کے تحت منصوبے شروع کیے گئے تھے جس میں کوہاٹ کیلئے 122 ملین، مانسہرہ اور ایبٹ آباد کیلئے 222 ملین روپے مختص کیے گئے تھے۔فنڈز خرچ ہوجانے کی وجہ سے مزید 172 ملین روپے کی ضرورت ہے۔ اگر وفاقی حکومت یہ رقم مہیا کر دے تو تینوں شہروں کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ سکتے ہیں۔
مزیدخبریں