فرانسیسی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں مسلمانوں پر بنیاد پرستی کا الزام عائد کرتے ہوئے حکام کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ کسی بیرونی ملک کی طرف سے بھیجے گئے امام کو رہائش کا اجازت نامہ جاری کرنے سے انکار کرے۔
فرانس کے وزیر داخلہ جیرارڈ ڈارمنین نے اپنے بیان میں کہا کہ فرانس ایسی مساجد کو بند کرنے اور کئی انجمنوں کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے جن پر بنیاد پرست اسلامی پروپیگنڈا کرنے کا شبہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کو شبہ ہے کہ ان عبادت گاہوں میں سے ایک تہائی بنیاد پرست ہیں، انٹیلی جنس سروس کی طرف سے انھیں نامزد کر دیا گیا ہے۔ حکام اسلام پسند پبلشرز نوا اور بلیک افریقی ڈیفنس لیگ کو تحلیل کرنے کی بھی درخواست کریں گے۔
ڈارمنین نے الزام عائد کیا کہ ’’ فرانس کے جنوبی قصبے ایریج میں مقیم کچھ بنیاد پرست یہودیوں کے خاتمے پر اکساتے ہیں اور ہم جنس پرستوں کے خلاف شدت پسندانہ رویہ رکھتے ہیں‘‘۔
انہوں نے مذکورہ تنظیم کے خلاف الزام لگایا کہ وہ گزشتہ سال جون میں پیرس میں امریکی سفارت خانے کے سامنے پولیس تشدد کے خلاف ہونے والے احتجاج کے منتظمین نفرت اور امتیازی سلوک کا مطالبہ کررہے تھے۔
واضح رہے کہ 2020ء میں امریکہ میں جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے خلاف بڑے پیمانے پر ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے عنوان سے احتجاج ہوا تھا۔ یہی احتجاج فرانس میں بھی کیا گیا تھا جس میں بلیک افریقی ڈیفنس لیگ نے حصہ لیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ احتجاج نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے خلاف تھا لیکن فرانسیسی وزیر داخلہ خود مظاہرین پر امتیازی سلوک کا الزام لگا رہے ہیں۔
جیرارڈ ڈارمنین کا کہنا ہے کہ آنے والے سال میں دیگر انجمنیں بھی تحلیل کے طریقہ کار کا سامنا کریں گی۔ ان میں سے چار پر اگلے ماہ ہی کارروائی کی جائے گی۔ گزشتہ ہفتے فرانس کی اعلیٰ ترین انتظامی عدالت کونسل آف سٹیٹ نے فرانس میں اسلامو فوبیا کے خلاف احتجاج کرنے والی تنظیم سی سی آئی ایف اور براکا سٹی کو تحلیل کرنے کے حکومتی اقدام کی منظوری دی ہے۔
ایمانویل میکرون کی حکومت نے اکتوبر 2020ء میں ایک سکول ٹیچر سیموئل پیٹی کے قتل کے بعد مسلمانوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا جس کیلئے نیا قانون منظور کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ فرانس کے صدر ایمانویل میکرون سے ان دنوں عوام ناراض ہیں ۔ حال ہی میں ان پر ایک پروگرام میں انڈا پھینک کر مارا گیا جبکہ اس سے پہلے ایک عام آدمی انہیں طمانچہ رسید کر چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایمانویل میکرون انہی صورتحال کو تبدیل کرنے کی غرض سے مسلمانوں کے خلاف کارروائی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔