وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کے حوالے سے مشاورت ہو گی، چیئرمین کے حوالے سے ایکٹ آف پارلیمنٹ ضرورآئے گا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی پرفارمنس بہت اچھی ہے، چیئرمین کے حوالے سے آئندہ چند دنوں میں فیصلہ ہو جائے گا۔
نیب ملک کا اعلیٰ ترین احتسابی ادارہ ہے۔ جہاں پر بڑے بڑے فراڈ کے کیسز تاحال التوا کا شکار ہیں لیکن اپوزیشن کے خلاف سیاسی نوعیت کے تمام کیسز پر فوری طور پر ایسی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے کہ پہلے فریقین اور پھر دنیا کی جانب سے اس کی متنازعہ حیثیت پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ یہی وہ وجہ تھی جس کے باعث آئین اور قانون میں ایسی شقیں شامل کی گئی تھیں کیونکہ سب کو یہ معلوم ہے کہ پاکستان میں احتساب کے نام پر کس طرح بد ترین اانتقام لیا جاتا ہے۔ کس طرح کرپشن کو ڈھونڈ نکلوانے کے دعوے کر کے چلتی حکومتیں اتار دی جاتی ہیں۔ اور کس طرح فاشسٹ حکومتوں کی جانب سے اپوزیشن کو پیس کر رکھ دینے کے لئے نیب نامی ہون دستہ استعمال کیا جاتا ہے، مگر نکلتا کچھ نہیں۔ ان قوانین کو بنانے والوں کے ذہن میں تب بھی یہ تمام نکات موجود ہوں گے۔ اب اس سے مسئلہ انہی کو ہے جن کے ماورائے آئین مقاصد پورے کرنے کی راہ میں آئین رکاوٹ بن رہا ہے۔ شہباز شریف اس وقت پارلیمان میں اپوزیشن لیڑر ہیں۔ آئین اور قانون کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن لیڑر سے باقاعدہ مشاورت کرنی ہے جس کے نتیجے میں ہی یہ تقرری ہو سکے گی۔ گذشتہ حکومت میں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم نیب چیئرمین کی تقرری کے لئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے باقاعدہ مشاورت کر کے نیب چیئرمین کی تعیناتی کی تھی۔ جس پر اس وقت کے اپوزیشن لیڈر کا تعیناتی پر اظہار اعتماد بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ مگر کیا کریں کہ موجودہ وزیر اعظم کی تمام تر خواہش یہ ہے کہ کچھ بھی ہو جائے اپوزیشن کے ساتھ ایک نشست نہ ہو۔ انا سے بھرپور اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اب بظاہر اصول سامنے لے آیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز کہتے ہیں کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کیسز کا سامنا کرنے والے کی مشاورت سے چیئرمین کو نامزد نہیں کیا جا سکتا۔ اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کی قانون میں گنجائش موجود ہے، مگر ایک ملزم جج کا انتخاب نہیں کر سکتا۔
یہ بات انہوں نے انڈیپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی۔ ان سے چیئرمین نیب کی تعیناتی کے معاملے پر اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف سے مشاورت بارے سوال پوچھا گیا تھا۔
شبلی فراز نے کہا کہ اس معاملے پر میاں شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ خود پیچھے ہٹ جائیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پر کیسز چل رہے ہیں، وہ اگر ایسا کریں گے تو ان کی عزت میں ہی اضافہ ہوگا۔
اب انقلابی شاعر کے فرزند جناب شبلی فراز کو کون بتائے کہ عزت اور بے عزتی کے معاملات تو مخالفین کو تب سمجھاتا ہوا کوئی وزیر اچھا بھی لگتا ہے جب وہ خود اصول، آئین اور قانون کے مطابق چلتا ہو۔ جس حکومت کو خود قانون نامی کتاب کے وجود سے چڑ ہو، جس کا سربراہ کوئی بھی الزام مخالفین پر تھوپے اور پھر یہ کہہ کر نکلتا بنے کہ یہ تو سیاسی بات تھی، جو ہر آئینی ادارے کو اپنی خواہش کی تسکین کے لئے استعمال کر کے بے آبرو کر چکے ہوں، جن کے احتسابی نظام کی قلعی ہر روز ایک ایک کر کے کھلتی ہو وہ کیا جانیں عزت اور بے عزتی اصول اور بے اصولی؟ شبلی صاحب کی بات درست ہوتی اگر اپوزیشن کے خلاف ان کی حکومت کی جانب سے سٹون کرشنگ مشین روز کسی کو نہ نگلتی اور اس میں سے کرپشن کے نام پر کچھ نکلتا سوائے سیاسی انجینئرنگ کے۔ یہ مان بھی لیا جاتا اگر پاکستان کے صحافی، سول سوسائٹی اور وکلا اپنے اپنے دائروں میں صحافیوں کے اغوا سے لے کر، سوشل میڈیا پر بولنے والوں کو اندر کرنے اور سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف متعصب ریفرنسز بنانے کی شکل میں آپ کی حکومت کی جانب سے روا رکھے جانے والی ناانصافی، فاشزم اور زیادتی کے خلاف سراپا احتجاج نہ ہوتے۔ حکومت کا کردار ہر سطح پر متنازعہ ہے۔ ایسے میں ایک مفت مشورہ کہ عزت بڑھانے کا واحد حل آئین میں موجود طریقہ کار پر عمل ہے۔ اور اسی میں ریاست، سیاست اور حکومت کی بقا ہے۔