ڈیرہ بگٹی میں پیدا ہونے والے ایک بلوچ بچے کی ڈائری

جب آپ کسی کے کان میں زہر بو دیتے ہو تو اس کے اثرات صدیوں تک رہتے ہیں۔ بائیک والا وہ محاورہ دہرا رہا تھا جو مشرف اپنی تقریروں میں بولا کرتا تھا۔ یہ وہ باتیں تھیں جو اس زمانے میں سکرین پر بیٹھے دو ٹکے کے صحافی حضرات بگٹی قبیلے کے بارے میں کہتے رہتے تھے۔

05:02 PM, 30 Sep, 2024

عبدالغفار بگٹی

میں شاید گاؤں کا واحد فرد رہ گیا تھا کہ جس کو اب بھی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ باقی تمام اب اس آواز کی قید سے آزاد تھے۔ شاید اس لیے کہ ان کی حس سماعت پر گزرے کئی سالوں سے بارودی بم اور گولیوں کی بے رحم آوازوں نے اثر ڈالا تھا۔ میں تو شہر میں رہتا رہا ہوں، مجھے تو گاڑیوں کے ہارن، چلتی مشینوں کی ڈگڈگی یا پھر سابق فوجی دستوں کے شادیانے بجانے کی آوازیں سنائی دیتی رہی ہیں اور ہاں اگر کبھی جب جلدی آنکھ کھلتی تو ہاسٹل کے لان میں بیٹھے پرندوں کے چہچانے کی آوازیں بھی سن لیتا تھا۔

اچانک اس کو پھر سے اس آواز نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب اس کے خیالات کا ربط ٹوٹ چکا تھا۔ اس آواز کے ساتھ چاند بھی کھڑکی سے اندر جھانک رہا تھا۔ ابھی اسے کھڑکی بند کرنے کی ہمت بھی نہیں ہو رہی تھی۔

وہ روز کی طرح آج بھی کچھ پوچھنے آیا تھا۔

وہ ہر روز اپنا سوال اس کی سماعتوں کی نظر کر کے چلا جاتا اور اگلے روز جواب طلبی کرتا۔ اور یہ سلسلہ گاؤں میں چھٹیوں کے دنوں میں رہتا اور شہر جاتے آخری رات اس کے کان میں گاؤں کے تمام مسائل بتا کر نکل جاتا۔

کچھ دن پہلے اس نے خلاف معمول ایک کے بجائے دو سوال پوچھ لیے تھے؛ دہشت گرد کون ہوتے ہیں؟ اور کیوں یہ کام کرتے ہیں؟

اگلے دن میں نے اسے بتایا کہ دہشت گرد وہ ہوتے ہیں جو دہشت پھیلاتے ہوں۔ جن کی موجودگی میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہو۔ اور لوگ حق کی بات کرنے سے بھی ڈرتے ہوں۔ اور وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی کوئی غلطی چھپانے کے لئے دہشت پھیلاتے ہوں گے!

ہمممم! کچھ دیر بعد پھر سے گرجدار آواز نے کانوں کی لو کو ہلا کر رکھ دیا۔ اور کہنے لگا کہ آج کل آپ لوگ کس سے زیادہ خوف کھاتے ہو!

میں سوچنے لگا۔ کافی دیر کی خاموشی نے اس کی برداشت کے پیمانے لبریز کر دیے تھے اور طیش میں آ کے بولنے لگا۔ بتاتے کیوں نہیں!

میں ڈرتے ڑرتے بول پڑا؛ آج کل۔۔۔ ریاست اور خدا۔۔ بس بول دیا یا یوں کہیے کہ منہ سے نکل گیا۔
وہ ڈاننتے ہوئے کہنے لگا کہ آپ ریاست اور خدا کو دہشت گرد کہہ رہے ہو!

میں نے کہا نہیں تو! خدا اور ریاست کو نہیں، ان کا وجود انسانیت کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ اور ریاست کے اداروں کے وجود کا مطلب امن و امان ہوتا ہے۔ وہ تو سب کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ سب اپنے جان و مال اور عزت و آبرو، عقیدے کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ مگر آج کل خدا اور ریاست کے منتظمین نے ہمیں بہت تنگ کر رکھا ہے۔ خدا نے ہمیں زندگی بخشی اور ریاست نے ہماری زندگی کے تحفظ کا ذمہ اٹھا رکھا ہے۔ مگر اب خدا کے منتظمین ہمارے لیے زندگی تنگ کر رہے ہیں اور ریاستی ادارے تو اب جان لینے پر تلے ہوئے ہیں۔

میری بات ختم ہونے کی دیر تھی کہ رونے کی آواز آنے لگی۔ جب تک میں جاگتا رہا، وہ آواز آتی رہی۔

قسط 2

ایک بلوچ بچہ تھیلی نما بیگ اٹھائے حصول علم کے لیے ڈیرہ بگٹی شہر کے درمیان گزرنے والی واحد ٹوٹی سڑک پر چلتا جا رہا تھا ۔ یہ وہ سڑک تھی جس کو بم دھماکوں نے کئی جگہوں سے نقصان پہنچایا تھا۔ ایک دو جگہوں پر گہرے شگاف پڑنے کی وجہ سے بارش کا پانی جمع ہو چکا تھا۔ اس کو ایک دو دفعہ ان کو پھلانگنا پڑا۔ مگر اب اس نے اپنا آدھا سفر تہہ کر لیا تھا۔ مگر اس نہتے سفر میں اس کے ذہن میں ماضی کے گزرے تلخ نقوش بھی ساتھ ابھر رہے تھے۔ اس کو وہ جنگی فوجی جہاز نظر آ رہے تھے جو اس کے سر کے اوپر سے گزر رہے تھے۔ اس کو وہ دن یاد آ رہا تھا جب اس کے ابو نے کمرے میں بیٹھنے سے سختی سے منع کیا تھا اور خصوصاً اس کو باہر بٹھا دیا تھا کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ فوجی جہاز بچوں اور عورتوں پر فائرنگ نہیں کرتے۔ دن کی روشنی نکلنے کے ساتھ کمرے سے باہر بٹھا دیا کرتے تھے اور غروب آفتاب کے بعد کمرے میں جانے کی اجازت ہوتی۔

اس کو یاد آ رہا تھا کہ کئی دن تک دل دہلانے والے دھماکوں کی آوازوں سے اس کے کان مانوس ہو گئے تھے۔ اس کی امی کی واحد بکری گھر سے چرنے کے لئے نکلی تھی مگر شام تک واپس نہیں آئی۔ اگلے دن گھر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر اس کی لاش ملی تھی جس پر ہیلی کی فائرنگ کے نشان تھے۔ اس دن پہلی دفعہ اس نے اپنی امی کو روتے ہوئے دیکھا تھا۔ اماں روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ اللہ مشرف کے بچوں کو بھی دودھ والی چائے سے محروم کرے جس طرح اس نے میرے بچوں کو چائے سے محروم کر دیا۔

اس کے ذہن میں گھر چھوڑنے کا آخری منظر بھی نظر آ رہا تھا کہ جب اس کے ابو، چاچو کا پانی والا بوزر لے آئے تھے، اس میں سارے بستر اور بچوں کو ڈالا گیا تھا اور کسی گمنام رستے کی طرف چل پڑے تھے۔ دن بھر بھوکا سفر کرنے کے بعد شام کے وقت وہ کسی جنگل کے پاس رکے تھے اور ساری رات آگ جلا کر اس کے گرد بیٹھے تھے۔ اتنی دیر میں اپنے خیالوں میں گھومتے گھومتے سکول کے دروازے تک پہنچ گیا تھا۔ سکول میں داخلے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ آج پھر سے بے مقصد ادھر آیا ہے۔ کیونکہ جس عظیم ہستی نے اسے علم کی شمع سے اُس کی زندگی کی ان گھٹا ٹوپ وادیوں کو منور کرنا تھا کسی کام سے سکول تشریف نہیں لائے تھے۔ ہیڈ ماسٹر کے دفتر کا چکر لگا کر استاد کا پوچھنے گیا مگر پتہ چلا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب خود پچھلے ہفتے سے سکول سے غیر حاضر ہیں۔ دل پر پتھر رکھ کر بوجھل قدموں کے ساتھ سکول سے باہر نکلا اور اسی راستے سے گزرتے ہوئے لوگوں کو اجنبی نگاہوں سے دیکھتا چلا آ رہا تھا۔

راستے میں بنے چائے کے ہوٹل کے ساتھ کچھ لوگ چٹائی پر بیٹھے شہر کے گزرے ہوئے حالات، حکومتی گرفتاریوں اور طاقت ور حلقوں کی جانب سے عائد جرمانوں کی داستانوں کے ساتھ موسم کی اچانک تبدیلی پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ گھر پہنچنے کے بعد اگلے ہفتے تک سکول نہ جانے کا ارادہ کر لیا۔ ویسے بھی سکول اپنے شوق سے جایا کرتا تھا نہ کہ گھر والوں کے کہنے پر کیونکہ گھر والے تو پڑھے لکھے نہیں تھے۔

قسط 3

صبح صادق کے وقت برآمدے میں ٹہلتے نوجوان سے مسجد میں داخل ہونے والے بزرگ نے سوال پوچھ لیا؛ بھائی تم کون ہو؟ کیوں پریشان لگ رہے ہو؟

'جی میں بلوچ ہوں'۔ رات کو میرے ابو کو کوئی اٹھا کر لے گیا ہے، دعا کرنا واپس کر دیں۔

ابو کو اٹھا کر لے گئے ہیں؟ یہ کیا بات ہوئی؟ پتہ کرو، بڑے بھائی کو بولو، پولیس کو رپورٹ درج کروائے۔ مل جائے گا۔ پریشان نہ ہونا۔

اور دعا کی بات پر سر اثبات میں ہلا کر مسجد میں داخل ہو گئے۔

اس شہری بابے کو کیا پتہ کہ اٹھانے والے کتنے زورآور ہیں۔ ان کے یہاں قانون نامی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ چاہے حکومتی ہوں یا سرداری۔

سرداری دور میں میرے بھائی کو حکومت نے مار کر لاش پھینک دی تھی کیونکہ وہ سردار کے ساتھ تھا اور حکومتی دور میں سرداری لوگ میرے ابو کو گھر سے اٹھا کر لے گئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے ابو حکومتی ایجنٹ ہے۔

اب وہ دل ہی دل میں دونوں ادوار کا موازنہ کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ سرداری دور میں وڈیرے ہوتے تھے اور ان کی بات مانی جاتی تھی اور حکومتی دور میں بھی وہی وڈیرے ہوتے ہیں اور ان کی بات مانی جاتی ہے۔

سرداری دور میں لاشیں گرتی تھیں اور حکومتی دور میں اجتماعی قبریں بنتی ہیں۔ لوگ اس وقت بھی طاقتور حلقوں کے شر سے محفوظ نہ تھے اور آج بھی حکومتی غنڈوں کا ڈر سونے نہیں دیتا۔

تعلیمی شرح اس وقت بھی کم تھی اور آج بھی وہی حالت ہے۔ غربت، بھوک، پریشانی سب کا سب اسی طرح ہے۔ قانون اس وقت بھی کوئی وجود نہیں رکھتا تھا اور آج بھی۔

اتنی دیر میں دوست کی کال آ جاتی ہے۔ اوئے بگٹی، ناشتہ تیار ہے۔ جلد آ کر کر لے، یونیورسٹی کا وقت نکل رہا ہے۔

ناشتے کے بعد بائیکیا کروا کر نکلا۔ ایک کلومیٹر طے کرنے کے بعد بائیک والا عادتاً پوچھ بیٹھا؛ بھائی آپ کون ہو اور کدھر سے آئے ہو؟

'جی میں بلوچ ہوں اور بلوچستان سے آیا ہوں'۔

جب یہ آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو اس کے اندر بہت کچھ ٹوٹ کر کرچی کرچی بن کر بکھر گیا۔ بائیک کی رفتار ذرا کم ہو گئی مگر سفر جاری رکھا۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد دھیمی آواز میں پھر ایک دلخراش سوال داغا؛ بھائی آپ لوگ ابھی بھی فوجیوں کو ذبح کرتے ہیں؟

اب اس کو میں کیا جواب دیتا!

پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کو کہا؛ نہیں بھائی اب وہ ہمیں ذبح کرتے ہیں۔

یہ صبح صادق کا وقت تھا۔ ایک چُستی کے ساتھ پڑھنے کے لیے جا رہا تھا۔ مگر اس ایک سوال نے کمر توڑ کے رکھ دی تھی۔ بس کچھ دیر بعد وہ اپنی منزل تک پہنچ گیا۔ اتر کر اس نے اس کو چار سو کے بجائے پانچ سو والا نوٹ تھما دیا۔ کچھ دیر اصرار کرتے رہے مگر وہ نہ مانا تو اٹھا لیا۔ اور کافی دیر تک اس کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہا اور ادھر سے چلا گیا۔

کیونکہ اس نے پہلی دفعہ کسی قصائی قبیلے کے شخص کو ٹائی کوٹ میں دیکھا تھا۔

یہ کوئی کہانی نہیں، حقیقت ہے۔ اس طرح کے واقعات ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ پیش آئے۔ اس کو کہتے ہیں، جب آپ کسی کے کان میں زہر بو دیتے ہو تو اس کے اثرات صدیوں تک رہتے ہیں۔ بائیک والا وہ محاورہ دہرا رہا تھا جو مشرف اپنی تقریروں میں دہرایا کرتا تھا۔

یہ وہ باتیں تھیں جو اس زمانے میں سکرین پر بیٹھے دو ٹکے کے صحافی حضرات اس قبیلے کے بارے میں کہتے رہتے تھے۔

اب کون ان کو بتائے، اس کو اپنے ملک سے کتنا پیار ہے!

اب اس کو کون بتاتا کہ اس کے پورے قبیلے کو ایک ڈکٹیٹر کے کہنے پر جانوروں کی طرح روندا گیا اور جلاوطن کر دیا گیا۔

مگر پھر بھی وہ سبز ہلالی پرچم سروں پہ باندھے واپس اپنے گھروں کو لوٹے۔

مزیدخبریں