کچھ غیرمصدقہ اطلاعات ہیں کہ عمران خان حکومت کا چل چلاؤ ہے۔ نئے بندوست کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ جس میں طاہر القادری کا کردار کلیدی ہوگا اور انہیں اہم ذمہ داری بھی سونپی جانے کی خبر ہے۔ طاہر القادری کا یہ فائنل راؤنڈ ہے، تبدیلی توقعات پوری نہیں کر پائی ہے اب انقلاب بپا کیا جائے گا۔
آمریت پسندوں کی قابل ذکر تعداد ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن اب جمہوریت کی جانب کھڑی ہے۔ لیگی صدر خواہش کے ہوتے ہوئے بھی اپنا رول ادا کرنے سے عاجز نظر آتے ہیں۔ جماعت اسلامی پروفیسر منور حسن کی امارت کے دور سے اپنی راہیں جدا کر چکی ہے۔ سراج الحق تمام تر رجعت پسندی کے جمہوریت کی جانب دیکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی تاریخ بے اعتباری سے بھری پڑی ہے۔ اس لئے پیپلز پارٹی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ ایم کیوایم کا قصہ ہی تمام ہوگیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان متحدہ مجلس عمل بنا سکتے ہیں مگر ایم ایم اے سے بات نہیں بن سکتی ہے۔ طاہر القادری ہی واحد سہارا ہو سکتے ہیں جو نئے بندوست میں ذمہ داری اور دیانت داری سے انقلابی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بلاشبہ طاہر القادری سیاست، ریاضت، خطابت، عبادت سمیت تمام تر انقلابی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ افرادی قوت اور سٹریٹ پاور بھی رکھتے ہیں۔ انقلاب کےلئے موزوں ترین ہیں۔ طاہر القادری کا ریکارڈ قابل بھروسہ اور تسلی بخش ہے۔ اب یہ طاہرالقادری کی سیاسی و انقلابی حکمت عملی ہو گی کہ تبدیلی کے خلاف اے پی سی میں ان کے ساتھ کون بیٹھتا ہے اور کون شریک سفر بنتا ہے۔ ذاتی طور طاہرالقادری ماہر کھلاڑی ہیں، انتخابی سیاست میں مات کھاجاتے ہیں، بوجہ اپنی جماعت پاکستان عوامی تحریک جو محض کارکنوں تک محدود رکھی گئی ہے۔ اس کے باوجود مٹیریل موجود ہے اور سیاسی حالات بھی سازگار ہیں۔
عمران خان حکومت کے خلاف عوام میں اس وقت کوئی سیاسی قوت نہیں ہے۔ یہی وقت ہے کہ طاہرالقادری پاکستان میں رہ کر متبادل قیادت کے طور حکومت کی بھرپور اپوزیشن کریں۔ مریم نواز اور بلاول عوامی پذیرائی حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ نواز شریف اور آصف زرداری جیل میں ہیں۔ طاہر القادری اب کے بار قائد انقلاب کی بجائے رہبر انقلاب کا کردار ادا کرتے ہوئے ملک بھر سے پاکستان عوامی تحریک میں سے صرف پچاس لوگ بذریعہ انٹرویو منتخب کریں اور پچاس لوگوں پر مشتمل عوامی انقلابی کونسل تشکیل دیں۔ پچاس لوگوں کی سیاسی و انقلابی تربیت کی جائے۔ یقین دلاتا ہوں صرف ایک سال کے مختصر عرصہ میں پاکستان عوامی تحریک ملک کی سب سے بڑی انتخابی جماعت کے طور ابھر ے گی۔
مقتدر حلقے اقتدار پی اے ٹی کی جھولی میں ڈالنے پر مجبور ہوں گے۔ بشرطیکہ جس طرح خبریں گردش میں ہیں کہ طاہرالقادری پھر آرہے اور سب کچھ چھوڑ کر، اپنی کشتیاں جلا کر آ رہے ہیں۔ طاہر القادری ایسا ہی کریں اور پاکستان میں بیٹھ کر انقلاب کی رہبری کریں۔ نئے عزم، نئے پروگرام، نئے نعروں کے ساتھ اپنی تربیت یافتہ انقلابی ٹیم کو میدان میں اتاریں۔ ایک بندہ بھی تحریک سے باہر کا نہ لیا جائے۔
مندرجہ بالا سطور میں مذکور پچاس لوگ خالص تحریکی ہوں اور طاہرالقادری کے ہر حکم کی تعمیل اپنے لئے عین فرض سمجھتے ہوں۔ اسی طرح وہ پچاس لوگ اپنے اپنے حلقوں میں پچاس پچاس لوگوں کی انقلابی کمیٹیاں تشکیل دیں۔ انقلابی کمیٹیوں کے ممبران گراس روٹ لیول پر انقلاب کے لئے عام عوام کو تیار کریں۔
طاہر القادری آرہے ہیں تو رکیں گے نہیں، اگر رک جائیں اور وہیں بیٹھ کر تجویز پر عمل درآمد شروع کردیں اور ہدف کی تکمیل پر وطن واپسی کا اعلان کریں تو سیاسی اور انقلابی لحاظ سے سود مند ثابت ہوگا۔ پاکستان عوامی تحریک کئی مراحل سے گزر چکی ہے۔ کارکنان بھی سختی کے مرحلے عبور کرچکے ہیں۔ اب کی بار پہلے کی نسبت آسانی ہوگی اور تجویز کردہ مرحلہ آسانی سے عبور ہوجائے گا پھر بانگ دہل اعلان کیا جائے کہ طاہر القادری آرہے ہیں۔