بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن کے تحت اقلیتی برادریوں کے تقریباً 20 لاکھ افراد شہریت سے محروم کردیے گئے جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ این آر سی میں 3 کروڑ 29 لاکھ لوگوں نے دستاویزات جمع کروائی تھیں تاہم حتمی فہرست میں 3 کروڑ 11 لاکھ لوگ شامل کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ آسام کی آبادی 3 کروڑ 30 لاکھ افراد پر مشتمل ہے جس میں تقریباً 90 لاکھ بنگالی نسل کے لوگ بھی شامل ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
بھارت کی جانب سے جن افراد کی شہریت منسوخ کی گئی ہے انہیں بنگلہ دیش کا شہری قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن کو سپریم کورٹ کی ہدایت پر اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے اور اس کے ذریعے 25 مارچ 1971 کو غیر قانونی طور پر ریاست میں آنے والوں کو علیحدہ کیا جا رہا ہے جب کہ این آر سی کی فہرست میں ان لوگوں کے نام بھی شامل ہیں جو یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ وہ 25 مارچ 1971 سے پہلے ریاست آسام پہنچے تھے۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بھارتی اقدام سے اب مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے 20 لاکھ افراد نہ صرف بے گھر ہو جائیں گے بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انہیں جیل میں ڈال دیا جائے گا جس کے لیے پہلے سے ہی آسام میں دس جیلوں کی تعمیر جاری ہے۔ ایک جیل میں تین ہزار افراد تک کو قید کرنے کی گنجائش ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق شہریت سے محروم ہونے والے افراد ٹریبونلز اور اس حوالے سے بنائی گئی خصوصی عدالتوں میں اپیل کرسکتے ہیں جب کہ انہیں ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا بھی حق دیا گیا ہے جب کہ اپیل مسترد ہونے کی صورت میں ایسے افراد کو غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں بھی لیا جاسکتا ہے۔
مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی طرز پر ریاست آسام میں بھی صورتحال پر قابو رکھنے کیلئے 60 ہزار پولیس اہلکار اور 19 ہزار پیرا ملٹری اہلکار تعینات کیے ہیں۔