سورج چاند کا اسیر کہاں ہو پائے گا؟
بعد جنگ چلائے گئے تیروں کا کفارہ کر لو
ہمارا مقابلہ اب تم سے کہاں ہو پائے گا؟
پتھروں سے جی لگانے کا صلہ یہی ہوتا ہے
آدمی اب انسان کہاں ہو پائے گا؟
ہم نے تو خزاں کو بھی بہار سا چاہا ہے
ہم سا شخص جہاں میں پیدا کہاں ہو پائے گا؟
دلِ منجمد زخم بھرنے میں درکار ہے پوری عمر
اپنوں کے واروں کا ازالہ کہاں ہو پائے گا؟
عادت سے مجبور ہیں میری بستی کے سب لوگ
نئے پیار کا آغاز ہم سے کہاں ہو پائے گا؟
شاعرہ: امیمہ رفیق