حملے کے بعد میر کالام وزیر کو خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے بنوں منتقل کر دیا گیا جب کہ ملزمان کو ڈھونڈنے کے لئے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر نے کہا کہ اتوار کے روز ان پر ناکام قاتلانہ حملہ کیا گیا جب کہ وہ پاکستانی فوج کے ایک قلعے اور ایک پولیس سٹیشن کے قریب ہی تھے۔
انہوں نے لکھا کہ ان پر شمالی وزیرستان قبائلی ضلع میں ناکام حملہ کیا گیا جب وہ تقریباً سکیورٹی اداروں کے دو دفاتر کے درمیان میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان پر حملہ ایسی جگہ پر کیا گیا جو کہ ایک پولیس سٹیشن اور ایک فوجی قلعے کے درمیان واقع ہے اور یہ حملہ آور وہاں اسلحے کے ساتھ ہمارے لئے تیار بیٹھے تھے اور محض اللہ کی مہربانی سے ہی وہ اس حملے میں زندہ بچ پائے۔
وزیر نے مزید لکھا کہ ایسے حالات میں ہم کس پر دہشتگردی کا الزام عائد کریں؟ ریاست پر یا کسی اور پر؟ ہم اپنے لوگوں کی زندگیاں مانگ رہے ہیں اور بدلے میں ہمیں یہ کچھ دیا جا رہا ہے۔ ہم واضح طور پر کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی جدوجہد کو اسی طرح جاری رکھیں گے۔
پولیس نے بھی واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میر کالام پر حملہ میر علی بازار میں ہوا تھا جب نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کھول دی جس سے ان کی گاڑی کو نقصان پہنچا ہے مگر وہ اور ان کے ساتھی محفوظ رہے ہیں۔
سینیئر سیاستدان افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار میر کالام وزیر پر حملے کے ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے دہشتگردوں کو اس علاقے میں دوبارہ اکٹھا ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ممبران کو خصوصی طور پر نشانہ اس لئے بنایا جا رہا ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف پشتونوں اور افغانوں کے خلاف جنگ کے منصوبوں کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے وزیرستان اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کے دوبارہ سے منظم ہونے بارے اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جب کہ پاکستانی فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں پر حملوں میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ اس حوالے سے تحریک طالبان پاکستان کے 2018 میں ملا فضل اللہ کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد کمانڈر بننے والے نور ولی محسود کی سربراہی میں طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان آپسی لڑائیاں ختم ہوتی جا رہی ہیں اور ان کی قیادت میں یہ تمام گروہ ایک ایک کر کے اکٹھے ہو رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ان کی طاقت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کے سینیئر صحافی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ پر مسلسل نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے 2018 میں نیا دور سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ نور ولی محسود کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان جو کہ شروع بھی محسود قبیلے سے ہی ہوئی تھی، اب یکجا ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نور ولی محسود کو طالبان کے مختلف گروہوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی قیادت میں اس کے یکجا ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ جولائی 2020 میں اقوام متحدہ نے بھی نور ولی محسود کو عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔ اس فیصلے کا پاکستان کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا تھا۔
یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ تحریک طالبان پاکستان 2011 میں ہی عالمی سطح پر دہشتگرد تنظیم قرار دی جا چکی ہے۔ نور ولی محسود کی قیادت میں جولائی 2019 میں شمالی وزیرستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملہ اور اگست 2019 میں خیبر پختونخوا میں پاکستانی دفاعی اداروں پر حملے بھی کیے گئے تھے جن کی تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ذمہ داری بھی قبول کی گئی تھی۔
2013 میں ملا فضل اللہ کے ٹی ٹی پی کے سربراہ بننے کے بعد پانچ سال تک تنظیم کی قیادت محسود قبیلے سے باہر رہی تھی اور یہی وجہ تھی کہ فضل اللہ کی سربراہی کے دوان تنظیم آپسی گروہی لڑائیوں کا شکار رہی۔