عمران خان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ آپ عمران خان کے وکیل کے ساتھ اس کورٹ کے معاون بھی ہیں، آپ نے جو تحریری جواب جمع کرایا اس کی توقع نہیں تھی، یہ کورٹ توقع کرتی تھی آپ ادھر آنے سے پہلے عدلیہ کا اعتماد بڑھائیں گے۔
کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان سے کہا کہ آپ کا تحریری جواب پڑھ لیا ہے، آپ کا جواب پڑھ کر مُجھے مایوسی ہوئی اِس جواب کی توقع نہیں تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ کبھی کسی نے ماتحت عدلیہ کے لیے کام نہیں کیا جس حالات میں وہ کام کرتی ہے اور کبھی کسی نے اُن کے لیے کام نہیں کیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان سے مخاطب ہو کر کہا کہ مُجھے توقع تھی بطور سیاسی جماعت کے طور پر آپ وہاں سے ہو کر آئیں گے۔ وہ جس حالات میں رہ رہے ہیں اُن کے لئے جوڈیشل کمپلیکس بنائیں۔ وہ بہت بڑے لیڈر ثابت ہوتے وہ وہاں جا کر کہہ دیتے کہ مجھے آپ پر اعتماد ہے۔ جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا اِسی طرح الفاظ بھی واپس نہیں ہوتے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کے حیثیت کے سیاسی رہنما کا ہر لفظ بہت سوچا سمجھا اور اہم ہوتا ہے لیکن آپ کے جواب سے ایسا کوئی احساس نظر نہیں آتا۔
انہوں نے اسفسار کیا کہ تشدد کیا ہے؟ سب سے بدترین تشدد لاپتہ کرنا ہے اور جو کُچھ بلوچ طلبہ کے ساتھ اسلام آباد میں ہوا۔ یو این کو 2021 میں خط لکھنا پڑا اور اسد طور سے لے کر ابصار عالم تک سب کیسز کا اُس میں ذکر ہے۔ ساڑھے تین سال آپ اقتدار میں تھے کاش اُس وقت یہ معاملہ اِس جوش و جذبے سے اُٹھایا جاتا تو آج نہ کوئی بلوچ طلبہ کے ساتھ یہ کرتا اور نہ کوئی تھانے میں تشدد کرتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اِس کیس میں معاملہ اِس عدالت کے سامنے زیرِ سماعت تھا، ایکٹنگ چیف جسٹس نے معاملہ بھجوایا۔ 28 تاریخ کو ایکٹنگ چیف جسٹس نے شہباز گِل کے کیس میں سب کو نوٹس کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل کِس کے زیرِ انتظام ہے؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ سر پنجاب حکومت کے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا کوئی جیل کسی قیدی کو وصول کرتی ہے جِس پر ذرا سا بھی تشدد ہو؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ سر انہوں نے تشدد کی شکایت نہیں صرف کہا کہ سانس کی شکایت ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 12 اور 18 کو یہ معاملہ زیرِ سماعت تھا اور تقریر کب ہوئی؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ، 'سر 20 اگست کو۔'
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک معاملہ زیرِ سماعت تھا تو کیسے یہ بیان دیا گیا؟ یہ عدالت لوگوں کو انصاف دینے بیٹھی ہے اور آپ جتنی مرضی تنقید کریں فردوس عاشق اعوان کا فیصلہ پڑھ لیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حامد خان یہ کھلی عدالت ہے، یہاں ہر عمل شفاف ہوتا ہے، ہم توہین عدالت کی کارروائی کو غلط طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے، اس میں آزادی اظہار رائے کا بھی معاملہ ہے۔ ہم انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں ڈالنے دیتے۔ یہ عدالت اظہارِ رائے کی آزادی کی سختی سے حفاظت کرتی ہے۔ لیکن ایک زیرِ سماعت معاملہ پر کیا مُہم چل پڑی۔
آپ کے لیڈر نے جائز سوال پوچھا کہ عدالت کیوں رات بارہ بجے کُھلی؟ یہ عدالت کسی بھی کمزور یا آئینی معاملے کے لئے 24 گھنٹے کھلی ہے، توہین عدالت کا معاملہ انتہائی سنگین ہے، جب زیر التوا معاملہ ہو اور انصاف کی فراہمی کا معاملہ ہو تو یہ بہت اہم ہے، عمران خان نے عوامی جلسہ میں کہا کہ عدالت رات 12 بجے کیوں کھلی، عدالت کو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کیوں کھلی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اِس جمہوریت اور آئین کا تحفظ کرنا ہے جو سیاستدان بھی نہیں کر رہے۔ ماتحت عدلیہ کا جج بھی سپریم کورٹ جج جتنا اہم ہے۔ اور آپ نے تقریر کر دی جیسے وہ کوئی مسٹر X یا Y تھی۔ وہ جج تھی۔
جِس بھی پارٹی کے خلاف فیصلہ آیا اُس نے ہمارے خلاف مُہم چلائی۔ سیاسی جماعت کا کردار ہوتا ہے۔ میری تصویر کو ایک سُپریم کورٹ کے جج کے ساتھ آج تک وائرل کیا اور کہیں فلیٹ دلوا رہے۔ اِس ادارے کی عزت کو اگر کسی سیاسی رہنما نے برقرار نہ رکھا تو وہ ناقابلِ تلافی نُقصان ہوگا۔
چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل حامد خان کو کہا کہ حامد خان صاحب آپ نے کتابیں لکھ رکھی ہیں۔ آپ کا جواب عمران خان جیسے لیڈر کے شایانِ شان جواب نہیں ہے۔
حامد خان نے کہا کہ اِس جواب میں اُن نکات پر ابھی زور نہیں دوں گا جِس کا آپ نے غلط تاثر لیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مُجھے رجسٹرار نے بتایا ایمنسٹی نے لکھا ہے تو بتا دیں، یہ اوپن کورٹ میں شفاف ٹرائل ہوگا اور آزادی اظہارِ رائے کا تحفظ کریں گے۔
حامد خان نے کہا کہ عمران خان کی تقریر کے پیچھے کوئی بدنیتی نہیں تھی۔ وہ جنسی استحصال کا سُن کر ڈسٹرب تھے۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اُس پر تحقیقات کا حُکم اسلام آباد ہائی کورٹ دے چُکی تھی، کیا ایک لیڈر کو عدالتی آرڈر کے بجائے کسی اور چیز کو دیکھنا چاہیے تھا؟ ان کا کہنا تھا اس عدالت کی مشکل یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے پہلے فیصلے دیے ہوئے ہیں، سپریم کورٹ نے دانیال عزیز، نہال ہاشمی اور طلال چوہدری کیس میں فیصلے دیے ہوئے ہیں۔
میاں گُل حسن اورنگزیب نے کہا کہ حامد خان صاحب یہ معاملہ آج ختم ہو سکتا تھا اور اِس جواب کی وجہ سے کیس کارروائی کے لئے آگے بڑھ سکتا تھا لیکن معزز چیف جسٹس نے آپ کو ایک اور موقع دیا ہے؛ آپ اِس کو سمجھیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اِس مُلک میں آئین اور سول بالادستی سے تبدیلی آئے گی۔ بدقسمتی سے مُلک بُری طرح تقسیم ہے۔ میں آپ لوگوں سے کہتا ہوں دونوں اطراف کوئی ایک نام دیں جِس پر کسی کا اعتراض نہ ہو۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 'کوئی نہیں ایسا'۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کہ مُنیر اے ملک، مخدوم علی خان اور پاکستان بار کونسل عدالتی معاون ہوں گے، سات دن میں جواب دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے ساتھ مطیع اللہ جان کھڑے ہیں، معلوم ہے نہ اِن کے ساتھ کیا ہوا؟ آپ کو سب معاملے معلوم تھے کاش یہ معاملے اُٹھاتے اور یہ جذبہ دکھاتے۔ اپوزیشن میں سب اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں۔ آج آپ پر بھی دہشتگردی کے مُقدمات قائم ہوئے۔ آپ کے دور میں پُرامن احتجاج کرنے پر پی ٹی ایم پر دہشت گردی کا مُقدمہ بنا مگر کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ عدلیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے 130 نمبر پر آ گئی۔ کاش پچھلے 30 سالوں کے معاملات میں تحقیقات ہو جاتی تو آج تشدد نہ ہوتا۔ عدالت نے ان پر احکامات دیے لیکن آپ کی حکومت نے مزاحمت کی۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ فواد چوہدری نے چیف جسٹس سے معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پر اِس کا اثر نہیں ہوتا۔ عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ 'سر پارٹی فواد چوہدری کے بیانات کو اون نہیں کرتی۔'
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید ریمارکس دیے کہ ہمارے ادارے نے بھی بہت غلطیاں کیں لیکن آپ کا جمع کرایا گیا جواب عمران خان کے قد کاٹھ کے لیڈر کے مطابق نہیں ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کو جو بھی لکھ کر دینا ہے سوچ سمجھ کر لکھیں، آپ اس معاملے کی سنگینی کا بھی اندازہ لگائیں، توہین عدالت کی کارروائی آج ختم ہو سکتی تھی مگر اس جواب کے باعث ایسا نہیں ہوا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو توہین عدالت کیس میں 7 روز میں جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔