عمران خان بے خوابی کا شکار، جیل میں نیند کی گولیاں کھاتے ہیں؛ جیل انتظامیہ

'چہل قدمی والے کوریڈور میں نصب کیے گئے کیمرے عمران خان کی کوٹھڑی سے 12 سے 14 فٹ کے فاصلے پر ہیں جو عمران خان کے ذاتی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرتے'، رپورٹ میں نگرانی کی وضاحت کرتے ہوئے مزید لکھا گیا کہ 'عمران خان کی کوٹھڑی کے اندر کوئی کیمرا نہیں لگایا گیا۔ جس بلاک میں وہ قید ہیں دو کیمرے اس بلاک کے باہر کی جانب لگائے گئے ہیں'۔

03:31 PM, 31 Aug, 2023

سید صبیح الحسنین

سابق وزیر اعظم عمران خان جنہیں توشہ خانہ کیس میں 3 سال کی سزا سنائے جانے کے بعد اٹک جیل میں رکھا گیا ہے، قید کے دوران بے خوابی کا شکار ہو گئے ہیں اور نیند کی گولیاں کھا رہے ہیں۔ اس بات کا انکشاف جیل انتظامیہ کی اس رپورٹ میں کیا گیا ہے جو سپریم کورٹ کے حکم پر تیار کر کے اعلیٰ ترین عدالت میں جمع کروائی گئی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم جاری کیا تھا کہ سابق وزیر اعظم کی جیل میں حالت سے متعلق تفصیلی رپورٹ جمع کروائی جائے۔ اسی حکم کی تعمیل میں اٹارنی جنرل نے یہ رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی ہے۔ رپورٹ اٹک جیل سپرنٹنڈنٹ نے مرتب کی ہے اور اس میں جیل میں موجود طبی عملے کی جانب سے عمران خان کے معائنے سے متعلق رپورٹ بھی شامل کی گئی ہے۔

میڈیکل رپورٹ میں درج ہے کہ عمران خان کو ماضی میں دل کی بیماری یا کسی اور بڑے عارضے کی شکایت نہیں رہی۔ درحقیقت، جیل میں تعینات طبی ماہرین کے بورڈ نے عمران خان کو مکمل طور پر صحت مند قرار دیا ہے جنہیں کوئی بیماری لاحق نہیں ہے۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان کو ایسی غذا مہیا کی جا رہی ہے جو جیل کے کھانے کے ساتھ شامل ہو کر متوازن غذا کا کردار ادا کرتی ہے اور اس ضمن میں عمران خان کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے انہیں پروٹین کی مطلوبہ مقدار فراہم کرنے کے لئے ہر ہفتے دیسی مرغی اور بکرے کا گوشت دیا جاتا ہے۔ صحت بخش غذا کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے انہیں تازہ موسمی پھل بھی دیے جا رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، جیل میں تعینات میڈیکل آفیسر کو باقاعدگی سے عمران خان کا چیک اپ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اور انہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی ممکنہ مسئلے اور اضافی میڈیکل ضرورت کے تحت ضلعی ہسپتال سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔

چند روز قبل اس قسم کی خبریں آئی تھیں کہ جیل میں عمران خان کی نگرانی کے لئے سی سی ٹی وی کیمرے لگا دیے گئے ہیں جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا، تاہم رپورٹ میں وفاقی حکومت نے ان خبروں کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا ہے۔

محفوظ اور آرام دہ جیل

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمران خان کو پاکستان پرزن رولز 1978 کے مطابق ان کی قانونی حیثیت اور مرتبے کے مطابق جیل میں رکھا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 'بلاک نمبر 2 اٹک جیل کا سب سے محفوظ حصہ ہے جسے عمران خان کے لئے خالی کروا لیا گیا تھا اور چار جیل کوٹھڑیوں پر مشتمل حصے کو ہائی آبزرویشن بلاک قرار دے کر عمران خان کو اس میں رکھا گیا ہے'۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کی کوٹھڑی سے متصل دیگر کوٹھڑیوں کو بھی خالی کروا لیا گیا ہے۔ مزید براں سیمنٹ کی مدد سے جیل کا فرش نئے سرے سے بنوایا گیا ہے اور عمران خان کو کوٹھڑی کی چھت میں پنکھا بھی لگا کر دیا گیا ہے۔

اس شکایت کے جواب میں کہ عمران خان کو دیگر عام قیدیوں کی طرح کھلا واش روم دیا گیا ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے لئے واش روم کے ایریا کو بھی بہتر بنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عمران خان کی کوٹھڑی میں واش روم کو بڑا کر کے 7x4 فٹ کا کر دیا گیا ہے جبکہ واش روم کی دیواروں کو 5 فٹ تک اونچا کر دیا گیا ہے۔ واش روم کے سامنے فائبر پلاسٹک سے بنا دروازہ بھی لگایا گیا ہے۔

ایک عدد نیا کموڈ، مسلم شاور، ٹشو پیپر کے لئے سٹینڈ اور سٹیل کے نل بھی واش روم میں لگائے گئے ہیں۔ واش روم کی دیواروں کو سیمنٹ سے پلستر کیا گیا ہے اور ان پر پینٹ چڑھایا گیا ہے۔ کوٹھڑی میں واش بیسن اور بڑا سا آئینہ بھی لگا دیا گیا ہے تاکہ ہاتھ منہ دھونے اور وضو کرنے میں آسانی رہے۔

چہل قدمی کی سہولت

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان کی کوٹھڑی صبح سے شام تک کھلی رکھی جاتی ہے اور چہل قدمی کے لئے بنائے گئے 13x44 فٹ کوریڈور میں وہ واک کر سکتے ہیں۔ عمران خان کو جیل میں آرام دہ فرنیچر اور چھوٹا پلنگ بھی فراہم کیا گیا ہے جس کے ساتھ 4 تکیے، ایک میز، ایک کرسی، ایک جائے نماز اور ایک ایئر کولر بھی شامل ہے۔

عمران خان کو پڑھنے کے لئے کتابیں بھی فراہم کی گئی ہیں جن میں انگریزی ترجمے والا قرآن مجید اور اسلامی تاریخ سے متعلق 25 کتابیں شامل ہیں۔ باہر کی دنیا سے متعلق باخبر رہنے کے لئے عمران خان کو 21 انچ کا ایل ای ڈی ٹیلی وژن اور اخبارات بھی فراہم کیے جا رہے ہیں۔

عمران خان کے جیل کے کمرے کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے ایک خصوصی اہلکار کو پابند کیا گیا ہے جو عمران خان کے کپڑوں اور واش روم کی روزانہ صفائی کرتا ہے جس میں لگ بھگ ہر روز دو گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ' عمران خان کے کمرے کو باقاعدگی سے صاف کیا جاتا ہے اور تعینات اہلکار یہاں کی صفائی کو مختلف چیزوں بشمول فینائل کی مدد سے یقینی بناتا ہے'۔

سکیورٹی کا انتظام

گرفتار ہونے سے قبل عمران خان کو جتنی سکیورٹی حاصل تھی، جیل میں بھی انہیں اتنی ہی سکیورٹی دی گئی ہے، جبکہ یہ سکیورٹی قیدیوں کو جیل توڑنے سے روکنے یا بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لئے مہیا کی جاتی ہے۔

'درخواست گزار یعنی عمران خان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے پنجاب کی دیگر جیلوں سے 53 اہلکار اٹک جیل میں تعینات کیے گئے ہیں'، رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے۔ اس سے جیل کے اندر اور باہر کی سکیورٹی مزید مضبوط ہو گئی ہے۔

'درخواست گزار کی کوٹھڑی کے اردگرد چار جیل اہلکار ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں جن کی سربراہی ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے پاس ہوتی ہے اور 8، 8 گھنٹے کی تین شفٹوں میں دن رات اتنے ہی اہلکار سکیورٹی کی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں'۔

تعینات سٹاف کی نقل و حمل کی نگرانی کی غرض سے چہل قدمی کے لئے بنائے گئے کوریڈور میں تین کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ عمران خان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے انہی کیمروں کی مدد سے ان کی صرف تبھی نگرانی کی جاتی ہے جب وہ چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں۔

'چہل قدمی والے کوریڈور میں نصب کیے گئے کیمرے عمران خان کی کوٹھڑی سے 12 سے 14 فٹ کے فاصلے پر ہیں جو عمران خان کے ذاتی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرتے'، رپورٹ میں نگرانی کی وضاحت کرتے ہوئے مزید لکھا گیا کہ ' عمران خان کی کوٹھڑی کے اندر کوئی کیمرا نہیں لگایا گیا۔ جس بلاک میں وہ قید ہیں دو کیمرے اس بلاک کے باہر کی جانب لگائے گئے ہیں'۔

بروقت اور تیز ترین رابطے کو یقینی بنانے کے لئے یہاں تعینات اہلکاروں کو وائرلیس سیٹ بھی دیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں درج ہے کہ جیل میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے 63 کلوواٹ کا جنریٹر بھی لگایا گیا ہے۔

عمران خان کا کھانا پینا

سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں عمران خان کو جیل میں دیے جانے والے کھانے کی تفصیلات بھی شامل کی گئی ہیں۔ ان کے کھانے میں زیادہ تر دالیں، سبزیاں، دہی، سلاد اور تازہ پھل شامل ہیں۔ رات کے کھانے میں عمران خان کو دال یا دہی کے ساتھ چاول دیے جاتے ہیں۔

ہفتے میں دو مرتبہ انہیں دیسی مرغی کا گوشت اور ہفتے میں ایک مرتبہ دیسی گھی میں پکایا ہوا بکرے کا گوشت بھی دیا جا رہا ہے۔

ملاقاتیں اور سکیورٹی کا انتظام

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان پرزن رولز 1978 کے اصول 92 اور 532 کے تحت عمران خان کو اپنے خاندان کے لوگوں، وکیلوں اور دوستوں کے ساتھ ملاقات کرنے کی اجازت ہے۔

رپورٹ کے مطابق اب تک عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ان سے تین مرتبہ ملاقات کر چکی ہیں۔ اس کے برخلاف ان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا اور بیرسٹر عمیر خان نیازی نے الگ الگ ان سے محض ایک ایک مرتبہ ملاقات کی ہے۔ مزید براں، 23 اگست کو سینیئر وکلا سردار لطیف کھوسہ اور بابر اعوان بھی ان سے ملے تھے۔

رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ عمران خان کی ملاقاتوں کے دوران جیل انتظامیہ کو سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔ سکیورٹی کے ان انتظامات کے باعث عمران خان کی ملاقاتوں کے دوران باقی قیدیوں کی نقل و حمل محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جیل میں معمول کے دیگر کام بھی متاثر ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ 'اس تناظر میں مذکورہ قیدی کو ہفتے میں 6 روز ملاقات کی اجازت دینے سے ڈسٹرکٹ جیل اٹک میں قید باقی 982 قیدیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کا احتمال ہے'۔

مزیدخبریں