ارے! ارے مجھے اچھے سے نہ بھی جانتے ہوں، پچھلے کچھ ماہ کی جان پہچان رہی ہے آپ سے، پوری بات تو سن لیں۔ قاتل نہیں ہوں، ہاں کوشش پوری کی تھی، خود کو قتل کرنے کی، ناکام ہو گئی۔ اب بیٹھی سوچ رہی ہوں اگر ہسپتال والوں نے پولیس کو اطلاع دے دی ہوئی تو اس کمرے کے باہر کیا ہو رہا ہو گا۔ گھر والے پریشان ہوں گے، ابا کی عزت پر بنی ہو گی، شوہر شرمندہ ہوں گے کہ لوگ کیا سوچیں گے، ان کے گھر کے معاملات کس نہج پر جا رہے تھے جو ان کی بیوی نے یہ قدم اٹھایا۔ بچوں کو شاید ساری عمر اب ایک ذہنی مریض عورت کی اولاد ہونے کا طعنہ سننا پڑے گا۔
مگر، آپ لوگ تو پچھلے کچھ دنوں سے جانتے ہیں مجھے، میرے کالج یونیورسٹی کے دوستوں سے پوچھ لیں میں ہنسنا جانتی تھی، زندہ رہنا جانتی تھی، بیت بازی، افسانہ نگاری کے مقابلے جیت کر بہن بھائیوں کو چڑانا جانتی تھی۔ میرے کالج اور یونیورسٹی کے جریدوں کے پرانے شماروں پر ابھی بھی میرا نام سب ایڈیٹر کے طور پر لکھا ہے، اردو ڈرامہ سوسائٹی کی ایک سال صدر رہی تھی مگر ہاں انگریزی سے میری کبھی نہیں بنی تھی، تو مطلب میں پیدائشی مجرم یا قتل کی خواہش سے نہیں بھری تھی۔ بلکہ میں نے بہت لوگوں کو مدد کے لیے پکارا تھا۔ ایک ایک کی منت کی تھی کہ مجھے قاتل بننے پر مت مجبور کریں مگر سب نے میرے ہاتھ میں خنجر پکڑایا۔
جب کسی کا ہاتھ پکڑا اس نے ہاتھ چھڑا کر، ایک اور زخم لگایا کہ درد اتنا بڑھے کہ میں خود کو mercy killing کے نام پر قتل کرنے پر مجبور ہو جاؤں۔ یہ مت سمجھیں کہ اب اس کوشش پر مجھے سزا ملے گی اس لیے خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ کیا سزا ملے گی مجھے، زیادہ سے زیادہ موت کی، اس کی تو دو دن پہلے میں نے خود کوشش کی تھی تو سزا سے ڈرنا بچگانہ بات ہے۔ میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ جس طرح ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں اس طرح شاید ہر خودکشی کے بھی دو رخ ہوتے ہیں۔ میرے ساتھ، میرے قتل کی کوشش میں اور بہت سے لوگ بھی شامل تھے۔ ان کو بھی تو ان کے حصے کی سزا ملے۔ زندگی تو اندر قطرہ قطرہ ختم ہوئی تھی، جس نے جتنے قطرے بیدردی سے بہائے اس کو اتنے قطرے موت کے ملیں۔
پہلی بار میرے اندر زندگی تب ٹھٹھر گئی تھی جب ابا نے چلا کر سوال کرنے کے حق کو بے حیائی اور بے ادبی کہا۔ دوسری بار تب جب اماں نے تعلیم سے دستبرداری کو سعادت مندی کہا۔ پھر تب جب زندگی میں اڑنے کی آرزو کو شادی کے پنجرے میں قید کیا۔ پھر تب جب معاشی خود مختاری کو ممتا کے بوجھ تلے دبایا گیا۔
ہر بار موت کی خاموشی گہری ہوتی گئی اور آنکھوں میں زندگی کی بھیک کے لیے چمکتی نمی مانند پڑتی گئی۔ مگر تب بھی زندگی کے لیے حوصلہ کب ہارا تھا، ہر گالی اور طعنہ قطرہ قطرہ اندر موت اتارتا گیا تو زندگی کے لیے ہر التجا (اماں اب نہیں سہہ ہوتا، اب بس کر دو۔ مجھے صبر اور برداشت کے بوجھ تلے دب کے مرنے سے بچا لو) کی صدا اونچی ہوتی گئی۔ سب سے پہلے میرے زندگی کو پکار پکار کر میں اندر سے مر گئی تھی مگر پھر بھی میرے اندر ایک ماں زندہ تھی۔ مگر اس ماں سے مذہب، بچے چھین کے باپ کو پکڑا دیتا ہے تو معاشرے کو یہ غصہ کے جب میں نے کہا تھا کہ گھر کی بنیاد کی پہلی اینٹ تمہاری انا اور عزت نفس پر رکھی جائے گی، اگر اسلام میں آ کر تم ستّی ہونے سے بچ گئی ہو تو اب اس گھر سے تمہاری لاش ہی آئے۔ اس حکم کی خلاف ورزی کی قیمت تو تم سے تمہارے کردار کا مان چھین کے ہی لی جائے گی۔
گھر کی چاردیواری کے اندر تمہاری لاش محفوظ تھی، اب باہر نکلی ہو تو تمھیں روز کبھی بس تو کبھی رش، کبھی کولیگ تو کبھی باس کے سامنے اپنی عزت نفس کا کوئی نہ کوئی ٹکڑا تو پھینکنا ہی ہو گا۔ پنچائیت میں جاؤ تو کردار ثابت نہیں ہوتا اور عدالت جاؤ تو وقت اور وکیل کی فیس۔
میری آنکھیں تو زندگی کی پکار سے بھری ہوئی تھیں۔ ہر جگہ، ماں باپ معاشرے دوست قانون سب کو پکارا تھا کہ مجھے بچا لو کسی نے بھی پکار کا جواب نہیں دیا۔ سب مجبور اپنی جگہ تو اب میں تھک گئی تھی پکارتے پکارتے۔ زندگی کو قطرہ قطرہ موت میں بدلتے دیکھتے اور سنڈریلا کے بدن میں سیب کے زہر کو سرایت کرتے۔ بدن کے خون کو اذیت میں بدلتے۔ برداشت کرتے کرتے۔ تو میں نے ایک ہی بار مرنے کا فیصلہ کیا۔
مگر بھول گئی آپ لوگ تو مجھے میری موت پر بھی اختیار نہیں دے سکتے، زندگی بھر کی قید ہے اس قید سے مرضی کے وقت پر نہیں نکلا جا سکتا تو اب جینے کی طرح مرنے کی بھی سزا ملے گی۔ مگر پتہ ہے موت جب زیادہ قریب آتی ہے تو اپ کے اندر بہت کچھ بدل دیتی ہے۔ اسی طرح میرے اندر شاید ایک اور دیکھنے کی حس جاگ گئی ہے، اپنے اردگرد چلتی بہت سی خواتین کے سر پر لدا زندگی کا بوجھ دکھنے لگا ہے۔ ان کی اَن چاہے رشتوں سے نکلنےکی پکار سنائی دینے لگی ہے۔ ان کے دل میں ہر طرف سے ہوا بند ہونے پر موت کے لیے پلتی خواہش میری رگوں میں خون کو چیخوں میں بدلنے لگی ہے اور میری انگلیاں فون کی سکرین پر تیزی سے چلنے لگی ہیں کہ آپ کو بتاؤں بہت سی سانسیں خاموشی سے زندگی کی بھیک مانگ رہی ہیں۔ مدد کو پکار رہی ہیں۔
آپ اس سال ان کے لیے کچھ نہیں بھی کر سکتے تو کم از کم ایک trend چلا کر اپنے معاشرے سے ان کو مرنے کی آزادی تو دلوا دیں۔ زندگی کے لیے ہاتھ پکڑنا مشکل ہے موت پر اختیار تو دلوا دیں کہ جیتے جی مرے رہنا بہت مشکل ہے۔ اس نئے سال پر جو لوگ زندگی سے ہار چکے ہیں اگر ان کی ہار کو جیت میں بدلنے سے معاشرہ کھوکھلا ہوتا ہے تو موت کا تحفہ دے دیں۔