سپریم کورٹ پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد سے رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے پیٹرن ان چیف ڈاکٹر رمیش کمار نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ملاقات کی۔
ملاقات کے دوران کرک میں ’ہجوم کی جانب سے ہندو بزرگ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی (مزار) و مندر کی بے حرمتی/نذرآتش کرنے سے متعلق معاملے پر تبادلہ خیال ہوا‘
سپریم کورٹ رجسٹری کے باہر ایم این اے رمیش کمارنے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے حکومت سے زیادہ عدلیہ پر اعتماد ہے، شعیب سڈل کی سربراہی میں کمیشن بنادیا گیا ہے۔ جو کیس کی تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین کرے گا۔
ایم این اے رمیش کمار نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کو شری پرم ہنس جی مہاراج مندر جلانے کے واقعے سے آگاہ کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے کا اے ٹی اے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، مقدمے میں نامزد کئی افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے، واقعے پر وزیر اعظم نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے علاقے کرک میں ہجوم نے مندر جلا دیا تھا، چیف جسٹس پاکستان نے ڈاکٹر رمیش کمارسے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور اس کا ازخود نوٹس لیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ایک ہجوم نے کرک کے علاقے ٹیری میں ایک مندر کو جلایا دیا تھا اور ایک ہندو بزرگ کی سمادھی کو نذرآتش کردیا تھا جبکہ اس کے کچھ حصوں کو منہدم بھی کیا تھا۔ پولیس اور مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ مندر پر حملے سے قبل ٹیری کے شنکی اڈہ کے مقام پر مذہبی رہنماؤں کا ایک اجلاس بھی ہوا تھا۔
مشتعل ہجوم کے افراد کو یہ نعرے لگا رہے تھے کہ وہ علاقے میں کسی مزار کی تعمیر کی اجازت نہیں دیں گے۔
خیال رہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کو ہندو کمیونٹی کی جانب سے مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہندو مذہب کو ماننے والے خاص طور پر سندھ سے لوگ یہاں آتے تھے۔
علاوہ ازیں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے پولیس کو سمادھی کو نقصان پہنچانے والوں کو گرفتار کرنے کی ہدایت کردی تھی۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر عرفان اللہ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ 2 مذہبی رہنما مولانا محمد شریف اور مولانا فیض اللہ سمیت متعدد نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں مظاہرین پر امن تھے لیکن کچھ رہنماؤں کی جانب سے اکسانے پر وہ مشتعل ہوئے اور سمادھی پر حملہ کردیا۔
تاہم مقامی علما کا کہنا تھا کہ ہندو برادری نے مزار کی توسیع کا ٹھیکا ایک مقامی ٹھیکے دار کو دیا تھا جو لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔