راحد فریدی اور ان کا خاندان خیبر ایجنسی کے جمرود بازار میں مٹن کڑائی ، باربی کیو اور پٹہ تکہ کے کاروبار سے گزشتہ تین دہائیوں سے وابستہ ہے ایک سال پہلے راحد کے ہوٹل میں گاہک اور کام کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک درجن ملازمین کام کرتے تھے اور صبح سے شام تک راحد فون پر اور ڈائریکٹ آرڈر وصول کرتے تھے۔
راحد آفریدی نے وباء سے پہلے کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
"کرونا وباء سے پہلے ہم اس ہوٹل میں پندرہ سے اٹھارہ دنبے فروخت کرتے تھےجس کی وجہ سے مالک سے لے کر ملازم تک ہر بندہ مصروف رہتا تھا مگر کرونا وباء کے بعد جب لاک ڈاؤن لگ گیا تو بادل نخواستہ ہمیں بھی ہوٹل کو بند کرنا پڑا تب سے ہمارے کاروبار کا زوال شروع ہوگیا ہے"
انھوں نے کہا کہ اب ہم بمشکل پانچ سے چھ دنبے فروخت کرتے ہیں اور اب ہمارے ملازمین کی تعداد بھی بارہ سے پانچ رہ گئی ہے ۔
راحد آفریدی اب گاہک کے لئے اکثر اوقات انتظار بھی کرتے ہیں اور آج بھی ہوٹل کے ملازمین بھی ایک کھونے میں بیٹھے گپ شپ کرتے نظر آئے ۔ ہوٹل کے سینئر کُک اختر حسین نے کہا کہ آج کل کاروباری لحاظ سے انتہائی دکھ کے مناظر ہیں کہ ہم اکثر اوقات مستقل گاہک کو مٹن کڑائی کے لئے خود بھی کبھی کبھار فون کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں افغانستان اور پاکستانی کا نارتھ ویسٹ ریجن مٹن کڑائی اور باربی کیو کےلئے بہت مشہور ہے چونکہ یہ پہاڑی علاقہ ہے اور علاقہ میں موسم خاصہ ٹھنڈار رہتا ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگ گرم رہنے کے لئے گوشت پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ کمرشلائزڈ دور سے پہلے تاریخی طور پر مقامی افراد کا روزگار لائیوسٹاک یا زراعت سے وابستہ ہے جس کی وجہ سے ان کے پاس مال مویشی کی کمی نہیں رہتی تھی۔ پشاور کا نمک منڈی مارکیٹ مٹن کھانوں کے لئے پورے ملک میں مشہور ہے اب تو ملک کے دوسرے شہروں میں بھی نان پشتونوں نے گاہک کو متوجہ کرنے کے لئے شنواری تکہ ہوٹل کے نام سے ریسٹورنٹس بنائے ہیں۔
چرسی تکہ نمک منڈی فوڈ سٹریٹ کی اہم ترین دکان ہے کرونا سے پہلے وہ دن میں پچیس سے تیس تک دنبے ذبح کرکے فروخت کرتے تھے اس دکان میں ملک کی اہم شخصیات نے بھی کھانا کھایا ہے اور اس کے ساتھ ملک بھر سے آئے ہوئے بیوروکریٹس اکثر چرسی کے مہمان ہوتے ہیں اس لحاظ سے یہ دکان اکثر اوقات میں خبروں میں ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک دن میں صرف نمک منڈی میں تقریبا" 200 دنبے کڑائی یا باربی کیو ہوتے تھے مگر اب صرف صورتحال مکمل طورپر تبدیل ہوچکے ہیں۔ اور اب بمشکل 50 سے 60 تک کے دنبوں کا کاروبار ہوتا ہوگا۔
انھوں نے کہا "کہ کرونا وباء سے پہلے ہم روزانہ 50 دنبے فروخت کرنے میں کامیاب رہتے اور رات گئے تک ہوٹل کھلا رہتا ہم نے مٹن کے شوقین افراد کے لئے بہترین متبادل جگہ اور ماحول فراہم کیا ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی کے اساتذہ سے لیکراعلیٰ عہدوں کے افسریہاں پر آتے تھے " ۔ رئیس خان نے مزید کہا کہ کرونا وباء نے لوگوں کی قوت خرید میں شدید کمی کر دی ہے تمام کاروبار سمیت ہوٹلنگ پر بھی خاصہ اثر پڑا ہے جس کی وجہ سے ہمیں مجبورا ملازمین کو فارغ کرنے سمیت اپنے اخراجات میں کمی لاتے ہیں ۔
حلال فوڈ اتھارٹی پشاور کے ترجمان قیصرخان نے کہا کہ اس وقت نمک منڈی، یونیورسٹی روڈ، رنگ روڈ پر مٹن تکہ کے تقریبا 150 دکانیں ہیں اور ایک اندازے کا مطابق مٹن کھانے کے لئے خیبر پختونخوا کے مقامی لوگوں کے علاوہ اسلام آباد سے بھی ایک بڑی تعداد میں لوگ چھوٹا گوشت کھانے کے لئے دو گھنٹے کے ڈرائیو پر پشاور آتے ہیں۔
لنڈی کوتل میں سب سے مشہور حاجی دادین بھی کرونا وباء سے پہلے روانہ 50-60 دنبے کڑائی، پٹہ تکہ اور باربی کیو میں فروخت کرتے تھے مگر اب حالات وہ نہیں رہے اس حوالے سے حاجی دادین کہتے ہیں کہ ایک تو کرونا وباء نے لوگوں کو مالی طور پر کمزور کردیا تو دوسری طرف کرونا سے پہلے دنبے افغانستان سے سیدھا طورخم بارڈر پر پاکستان کو آتے تھے جن پر بہت ہی کم خرچہ آتا تھا اب یہ دنبے براستہ چمن واپس اسی بارڈر پر پہنچے ہیں جس کی وجہ سے ایک دنبے پر تقریبا 3000 ایکسٹرا خرچہ آتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں بھی مٹن کی قیمت کو بڑھانا پڑا ہے