پیپلزپارٹی کو سدھارنے والے بلوچستان کے سینئر سیاستدانوں میں ،میر سلیم خان کھوسہ ،میر عارف جان محمد حسنی،آغا شکیل احمد درانی ،میر فائق خان جمالی ،میر رؤف رند،میر اصغر رند،میر عبیداللہ گورگیج،سردار زادہ میر فیصل خان جمالی اور حاجی ملک شاہ گورگیج شامل ہیں۔ اسکے علاوہ نوابزادہ میر نعمت اللہ زہری پہلے ہی پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے قریبی ذرائع نے نیا دور کو بتایا کہ بلاول ہاؤس میں سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کرنے والے تینوں رکن صوبائی اسمبلی عارف حسنی، سلیم کھوسہ اور ظہور بلیدی پہلے سے ہی موجودہ چیف منسٹر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف کام کر رہے تھے۔ باپ پارٹی کی صدارت کے جھگڑے میں بھی انہوں نے جام کمال کا ساتھ دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق یہ تینوں ایم پی ایز پارٹی میں گروپ بندی اور من پسند وزراتوں کا مطالبہ کرتے رہے۔ جس کے باعث انہیں وزیر اعلی بلوچستان نے حال ہی میں وراننگ بھی جاری کی تھی۔
بی اے پی کے قریبی ذرائع نے اس تاثر کی تردید کی ہے کہ ان کی پارٹی کو اب اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہیں رہی۔ "ابھی تک تو ہمیں ایسی بات نظر نہیں آئی۔ ہمارا وزیراعلی موجود ہے اور حکومتی معاملات بھی نارمل چل رہے ہیں۔ چند لوگوں کے پارٹی چھوڑنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ممبران صوبائی اسمبلی جو بی اے پی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ وہ کسی اور کو ووٹ نہیں دے سکتے۔ اصولی طورپر تو انہیں خود ہی مستعفی ہو جانا چاہیے'۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کےمطابق کوئی بھی پارٹی ممبر اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتا۔ اگر ایسا کرے گا تو وہ ووٹ تصور نہیں کیا جائے گا اور وہ نااہل بھی ہو جائے گا۔
بلوچستان میں چلتی سیاسی ہوائیں صرف حکمران جماعت بی اے پی پر ہی اثر انداز نہیں ہو رہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف سے بھی پرندے اڑنے کو تیار بیٹھے ہیں اور سب کا رخ پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف ہی ہے۔ آصف علی زرداری نے بلوچستان بھر سے طاقتورسیاسی امیدواروں کو چننے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اسے جہاں بہت سے سیاسی ماہرین مستقبل میں ہونے والی نئی سیاسی صف آرائیوں کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں، وہیں دیگر سیاسی جماعتیں بھی اسے شک کی نظر سے دیکھ رہی ہیں۔
نیا دورسے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کے ایک سینئر رہنما نے کہاکہ "سینیٹ انتخابات 2018 میں جو کچھ ہوا، اس میں زرداری صاحب کا بہت بڑا رول تھا۔ لگتا ہے کہ اب کی بار انہیں اسی مدد کرنے کے صلہ دیا جا رہا ہے۔ لیکن اگریہ پرانا سکرپٹ دھرایا جائے گا تو پھر یقینا پنجاب میں بھی ہلچل ہو گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسکا زیادہ نقصان ہمیں ہوتا ہےیا پی ٹی آئی کو۔'