ناول اپنی جگہ باکمال ہے اور میں ہر ایک کو، جو اچھے ناول پڑھنے کا متلاشی ہے، یہ رائے ضرور دوں گا کہ وہ اس ناول کا مطالعہ ضرور کرے۔ مگر اس کے باوجود کہ یہ اپنے آپ میں ایک بڑا ناول ہے اس میں کچھ سقم نمایاں ہیں۔ ان میں سے کچھ مجھے بھی نظر آئے اور اب میں ان کا ذکر کرتا ہوں۔
ناول بڑا ضخیم ہے اور اس کے ضخیم ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ لکھاری کے پاس کہنے کو بہت کچھ تھا۔ شروعات میں کچھ جگہ غیر ضروری تفاصیل دی گئی ہیں مگر اس کے بعد کہانی کے لحاظ سے ہی کہانی چل رہی تھی اور کچھ بھی غیر ضروری نہیں تھا۔ اس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس نے بھی وسیع ہونا ہی تھا۔ ایک تو اس کا کینوس بڑا اور دوسرا مرزا صاحب کے مشاہدے کے باعث اس کی طوالت میں اور اضافہ ہو گیا۔ انہوں نے اس طرح منظر کشی کی ہے کہ جو ہو رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ میں پڑھ نہیں رہا دیکھ رہا ہوں، میں قاری نہیں بلکہ ناظر ہوں۔ اس میں تجسس بھی ایک فلم جیسا ہی ہے اور جو ہدایت کار کا کیمرہ کام کرتا ہے وہ مرزا صاحب کے قلم نے کیا۔ جس طرح کسی بھی اچھی فلم میں تجسس داخل کرنے کے لئے کیمرے کو ایک خاص زاویے پہ رکھ کر ایک کردار کی نظر سے دکھایا جاتا ہے اور جس طرح کردار خود متجسس ہوتا ہے اُس طرح ہی ناظرین بھی ہو جاتے ہیں کہ آگے جس کو وہ کردار دیکھ رہا ہے وہ ہے کیا؟ اگر شخص ہے تو وہ کون ہے؟ اگر جگہ ہے تو کون سی جگہ ہے؟ ایسے ہی سوالات اِس ناول کو پڑھتے وقت میرے ذہن میں بھی آئے گو کہ ان کرداروں سے اور اُن جگہوں سے میں واقف تھا اور اُس کا اندازہ لگانے کا الگ ہی لطف تھا کہ وہ 'وہ' ہے اور وہ 'وہ'۔
مرزا صاحب انگریزی ناولوں سے کافی متاثر ہیں اور اِن کے اِس ناول کے ڈانڈے بھی مجھے ڈی ایچ لارنس کے طریقہ خواندگی سے ملتے جلتے لگتے ہیں۔ میں اِس وقت لارنس کا ہی “Women In Love” پڑھ رہا ہوں اور اِن دونوں کی لکھائی میں کافی مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ ویسے میں ضخیم ناولوں کے خلاف ہوں کیونکہ اب اتنا وقت نہیں ہوتا یا اگر ہوتا بھی ہے تو ایک ناول پہ اتنا وقت لگایا جائے تو باقی کب پڑھیں جائیں گے؟ مگر اِس ناول کی ضخامت پر اتنا ہی اعتراض ہے جتنا اوپر کر چکا ہوں۔ کوئی ناول اپنی ہئیت کے اعتبار سے 800 صفحات کو پہنچ سکتا ہے جس طرح غلام باغ پہنچا ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں۔
ایک جگہ جو لکھاری کے لئے غور طلب تھی جس پر انہوں نے بالکل ہی توجہ نہ دی وہ مترجم کی حیثیت سے تھی۔ کافی جگہوں پر بلکہ ہر اُس جگہ پر جہاں ہاف مین ہوتا وہاں انگریزی میں بات ہو رہی تھی۔ مرزا اطہر صاحب اس کا اردو میں ترجمہ کر کے ہمیں بتلا رہے تھے۔ مگر اِس ترجمہ کرنے میں انہوں نے ترجمے کا پاس نہ رکھا۔ وہ انگریزی کے وہ الفاظ تو استعمال کر سکتے تھے کیونکہ الفاظ کے اپنے جذبات ہوتے ہیں اور وہ دوسری زبان میں کبھی نہیں بھی مل سکتے۔ مگر انہوں نے اس طرح مکالمہ لکھا ہے جیسے میں اور آپ بات کرتے ہوں اور اردو میں انگریزی تخلید ہو جاتی ہے۔ جیسے کبیر کہتا ہے کہ "میں کرائے کا لکھنے والا ہوں۔ I am a Mercenary Writer.” یہ ترجمہ کرنے والا نہیں لکھ سکتا۔ کیونکہ یہ ترجمہ ہوا ہی نہیں۔ یہ ہم ایسے کہتے ہیں اس نے ایسے ہر گز نہیں کہا ہوگا۔ یہ محض ایک مثال ہے۔ ناول میں کافی مل جائیں گی but you get the idea ۔ ( یہ جان بوجھ کر اوپر والی بات کو سمجھانے کے لیے Bilingual لکھا ہے۔)
ایک جگہ انہوں نے کہا کہ علم تو گوروں سے ہی آیا ہے، وہی تحقیق کرتے ہیں، ہم تو چوری کرتے ہیں۔ یہ سوچ تو انگریز راج سے اِدھر آئی تھی اور مرزا صاحب بھی ابھی بھی اپنے آقا کو مانتے ہیں۔ گو کہ یہ بات غلط نہیں کہ ترقی انہی کی وجہ سے ہوئی، جدت وہ لے کر آئے مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اِس خطے کے لوگوں کو کھڈے لین لگا دیا جائے! مرزا صاحب نے خود کہا کہ انہوں نے کسی اردو لکھنے والے کو serious لے کر نہیں پڑھا، سوائے مشتاق احمد یوسفی کے، آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ آپ اپنی زبان کے لحاظ سے کتنے احساسِ کم تری کا شکار ہیں۔
ابھی میں نے ان سے سخت اختلاف کیا ہے اور ابھی ہی میں جب ان کے بوٹوں میں جا کر سوچتا ہوں تو منتج یہ ہے کہ اُن کے پاس انگریزوں سے نہ متاثر ہونے کی اور اردو لکھاریوں سے متاثر ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ وہ فلسفے کے بندے ہیں اور ہمارے یہاں ابھی تک کوئی ناول ایسا نہیں جس کی بنیاد فلسفہ ہو۔ آپ "آگ کا دریا" دیکھ لیں، "اداس نسلیں" دیکھ لیں، "کئی چاند تھے سرِ آسماں" دیکھ لیں، یہ تینوں کے تینوں ہی تاریخ پر لکھے گئے ہیں۔ اب اگر ایک مرزا صاحب جیسا نکلا ہے جو فلسفی ہے وہ کیا کرے۔ انہیں کوئی طریقہ تو چاہیے کہ وہ اپنا تخیل، اپنی سوچ قلم بند کر سکیں۔ ہمارے یہاں تو Historical Fiction لکھ کر معرکہ سر زد کر لیتے ہیں! اِس اعتبار سے بھی یہ اردو زبان میں ایک حیرت انگیز جست ہے۔
عموماً ناولوں میں ایک بنیادی کردار ہوتا ہے اور باقی کردار محض اِس لئے آتے ہیں کہ اُس بنیادی کردار کو پُر کر سکیں۔ مگر اِس میں چار بنیادی کردار ہیں۔ کبیر، ناصر، زہرہ اور ہاف مین۔ اِس کی ضخامت کی یہ بھی ایک وجہ ہے۔ جب کردار چار ہیں اور ہر ایک کی کچھ کہانی اپنی ذاتی ہے اور کچھ ایک دوسرے سے منسلک ہے، پھر ہر زاویے سے بیان کرنے میں صفحے تو کالے ہوں گے ہی۔ مرزا صاحب نے کرداروں کی صرف باہر کی دنیا ہی بیان نہیں کی بلکہ اُن کی اندر کی دنیا بھی بخوبی بیان کی ہے۔ جس طرح ایک انسان ایک لمحے میں کئی جگہوں پر ہوتا ہے ایسا ہی اِس ناول میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
ناول پڑھتے وقت کئی جگہ مجھے لگا کہ اب کہانی ختم ہو جائے گی مگر وہ بھی اُسی وقت کوئی نیا پہلو اجاگر کر دیتے ہیں۔ ایسا ہوبہو میں نے ایک ڈرامہ The Walking Dead میں دیکھا۔ ہر قسط میں وہ کوئی نہ کوئی ایسا پہلو نکال دیتے ہیں جس سے اگلی قسط بننا لازم ہو جائے۔ ایسا ہی اس ناول میں بھی ہے کہ باب میں کچھ ایسا کہہ دیتے ہیں جس کی تفصیل بیان کرنے کے لئے اگلے باب درکار ہوتے ہیں۔
ایک دو جگہ کچھ ایسے واقعات ہیں جو سمجھنے میں نہیں آتے مگر بیانیے کے مطابق ماننے پڑتے ہیں۔ جیسے جنم کھنڈر اور پھر وہ سانپ جس کو دیکھ کر مدد علی گنگ ہو جاتا ہے اور پھر مدد علی کے اندر جنات، جو اصل میں جنات نہیں کوئی نفسیاتی بیماری ہے۔ ایسی ہی کچھ باتیں اختر رضا سلیمی صاحب کے ناول "جاگے ہیں خواب میں" میں بھی ملتی ہیں اور غالباً اسے ہی جادوئی حقیقت نگاری کہتے ہیں۔
اب ناول کے انتساب پر آتے ہیں جو 'ارذَل' نسلوں کے لئے ہے۔ زہرہ کا باپ یارور عطائی ایسی ہی کسی نسل سے تعلق رکھتا تھا جو لوگوں کو، اور خاص طور پرزمانے کے عظیم عہدیدار لوگوں کو ٹانگوں کے بیچ سے قابو کرتا تھا۔ مگر میرے خیال سے ذلیل اور نہایت ہی سفلی نسل تو دوسری والی ہے، جو قابو آ جاتی ہے۔ جیسے منٹو صاحب کے ایک افسانے "اوپر نیچے اور درمیان" میں ذکر ہے کہ جن کے پاس سب کچھ ہے بس صحت ہی نہیں۔ وہ اتنے تندرست نہیں کہ وہ کام کر سکیں جس کی طلب ہر نارمل انسان کو ہوتی ہے۔ ایک طرح سے وہ اُس"گنجینہ نشاط" کے غلام ہیں اور غلامی سے بڑی ذلیل چیز کیا ہوگی۔ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اپنی ایک کمزوری کی بابت غلاموں کے آقا خود غلام بن گئے۔
اسی جسمانی کمزوری کا یاور عطائی فائدہ اٹھاتا تھا اور اسی کی وجہ سے آگے کبیر کی موت ہوئی۔ محض اپنے شہوانی جذبات کی وجہ سے ہی امبر جان نے اُس کو مارا اور بعد میں خود بھی حادثاتی طور پر ہلاک ہو گیا۔ امبر جان بھی اور اس کے ساتھ اور بھی کئی لوگ یاور عطائی سے خاص دوا لیتے تھے جس سے وہ مباشرت کے وقت ایک خاص خمار میں مدہوش ہو جاتے تھے اور وصل کا اور لطف آتا اور اور زیادہ آتا کہ اُس دوا سے جسے Aphrodisiac کہتے ہیں اس سے وقت کی کچھ مہلت مل جاتی اور بندہ تب تک محظوظ ہو کر پھینٹ سکتا تھا۔ یہ دوا جسمانی کمزوری کے شکار کے لئے ہی نہیں بلکہ اُن کے لئے بھی ہے جو کچھ زیادہ ہی اِس لحاظ سے زیادہ ہی active ہوتے ہیں کہ ابھی کھیل شروع کیا نہیں کہ ختم ہونے کا نیوتا پہنچ جاتا۔ میرے قیاس کے مطابق انہی لوگوں کو ارذل کہا گیا ہے۔
یہ میں نے مرزا اطہر بیگ صاحب کا پہلا ناول پڑھا ہے اور میں ضرور اِن کے نئے ناول آنے سے قبل ہی "صفر سے ایک تک" اور "حسن کی صورتِ حال" پڑھوں گا۔ اُس میں بھی کچھ دلچسپ پڑھنے کو ملے گا۔ اِس ناول نے اور اختر رضا سلیمی صاحب کے دونوں ناولوں نے مجھے یقین دلا دیا ہے کہ اردو کا سنہرا دور کہیں نہیں گیا، یہ ہی ہے۔