پاکستان میں تعلیم کا بجٹ عالمی معیار سے بہت کم ہے
پاکستان اپنی جی ڈی پی کا محض 2.8 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جو کہ عالمی معیار کے مطابق طے کردہ 4 سے 6 فیصد سے بہت کم ہے۔ ملک میں بہت سے ایسے سکول موجود ہیں جہاں فرنیچر، بیت الخلا اور سب سے بڑھ کر اساتذہ کی کمی ہے۔ پاکستان کے سرکاری سکولووں میں تعلیم کا معیار اس قدر زبوں حالی کا شکار ہے کہ بہت سے والدین اپنے بچوں کو ان سکولوں میں بھیجنا پسند ہی نہیں کرتے۔ سرکاری سکولوں کے پست معیار تعلیم کی بدولت نجی سکول چلانا ایک انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ نجی سکولوں میں والدین کو اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کیلئے ہزاروں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ یہ تعلیم انہیں سرکاری سکولوں سے مفت ملنی چاہیے۔
بچیوں کی تعلیم میں اور بھی مسائل کا سامنا ہے
اس کے علاوہ سکول نہ جانے والی بچیوں کی تعداد بچوں سے زیادہ ہے اور اکثر و بیشتر اس کی وجوہات ہماری سماجی اور ثقافتی روایات ہیں۔ بچیاں یا تو کام کرنے کیلئے سکول نہیں جاتیں یا شادی کے باعث یا پھر بچیوں کے سکول ان کے رہائشی علاقوں سے بیحد دور ہوتے ہیں۔ تمام صوبوں میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے لحاظ سے بلوچستان سرفہرست ہے کیونکہ صوبے کے پاس سکولوں اور اساتذہ کی تعداد سب سے کم ہے۔ اساتذہ کو سفارش کی بنیاد پر بھرتی کیا جاتا ہے اور انہیں کچھ نہ کرنے کیلئے بھی تنخواہیں دی جاتی ہیں۔
تعلیم ہمارا حق ہے اور آئین میں اس کو مفت اور ضروری فراہم کرنے کے بارے میں واضح طور پر ہدایات درج ہیں۔ ہم شہریوں کو ہمارے بنیادی حقوق ضرور ملنے چاہئیں۔ حکومت کو عوام کی تعلیم پر خرچ کرنے کیلئے زیادہ وسائل استعمال کرنے چاہئیں۔ سرکاری اور نجی سکولوں میں تعلیم کا معیار بہتر بنانا چاہیے اور بچوں اور بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع میسر آنے چاہئیں۔