ماہر قانون دان رشید اے رضوی نے جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ کہیں تاثر نہیں دیا گیا کہ ججز اور ان کے اہلخانہ کا احتساب نہیں ہوسکتا، فروغ نسیم عوام کو کنفیوژ کر رہے ہیں۔
رشید اے رضوی کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کا اضافی نوٹ فیصلے میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
ادھر جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ ججز کے احتساب کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ ہے اور پھر جوڈیشل کونسل بھی موجود ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے جسٹس قاضی فائزعیسٰی نظرِ ثانی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی اور اہم سنگِ میل قرار دے دیا۔
ایک بیان میں احسن بھون کا کہنا ہےکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں تمام آئينی و قانونی پہلوؤں کو سامنے لایا گیا جنہیں گزشتہ فیصلے میں نظر انداز کردیا گيا تھا۔
احسن بھون کا کہنا ہےکہ حکومت کو جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ باریک بینی سے دیکھنا چاہیے اور اس میں جن کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ان کا کسی الیکٹڈ آفس میں رہ جانا اب ممکن نہیں، یہ فیصلہ بالکل آزادانہ ہے۔
خیال رہےکہ سپریم کورٹ نےگزشتہ روز جاری کردہ تحریری فیصلے میں قرار دیا تھا کہ سپریم کورٹ کا جسٹس فائز عیسیٰ کی فیملی کے خلاف ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غلط تھا، سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیجا جاسکتا، جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور ان کے اہل خانہ کا ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکھٹا کیا گیا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے اثاثوں سے متعلق نظرثانی کیس کا 45 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا جس میں عدالت نے جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی عیسیٰ اور اہلخانہ کا ٹیکس ریکارڈ حکام نے غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا۔
تاہم جیو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے وقافی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف نہیں لیکن وہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے۔
وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے کو تضاد کا حامل بھی قرار دیا تھا۔