ایوارڈیافتہ صحافی 'عنبر رحیم شمسی' سے ایک ملاقات۔۔

ایوارڈیافتہ صحافی 'عنبر رحیم شمسی' سے ایک ملاقات۔۔
عنبر رحیم شمسی ایک ایوارڈ یافتہ ملٹی میڈیا صحافی ہیں، جن کے پاس ٹیلی ویژن، ریڈیو، آن لائن اور پرنٹ میڈیا کا وسیع تجربہ ہے۔ وہ بیس سال سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں۔

عنبر شمسی انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (IVLP) اور سنٹر فار ایکسی لینس ان جرنلزم (ICFJ) کی فیلو بھی ہیں۔ وہ ایک ابھرتی ہوئی لیڈر کے طور پر جناح انسٹی ٹیوٹ کے انڈیا پاکستان ٹریک II چوفرایا ڈائیلاگ میں بھی دو بار حصہ لے چکی ہیں۔ عنبر رحیم شمسی بڑے نیوز چینلز پر خبروں اور حالات حاضرہ کے شوز کی میزبانی کر چکی ہیں جبکہ انہوں نےقومی اور بین الاقوامی میڈیا پلیٹ فارمز کے لئے لکھا۔ اس سے قبل وہ بی بی سی ورلڈ سروس کی دو لسانی رپورٹر، ٹیلی ویژن اینکر، ڈیسک ایڈیٹر، اور پروڈیوسر تھیں۔ ان کی رپورٹنگ زیادہ تر انسانی حقوق پر مرکوز ہے۔ انہوں نے میڈیا میں خواتین کے بارے میں تحقیقی رپورٹیں اور تربیتی کتابچے بھی لکھے ہیں، صنفی اور تنازعات کی رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ میڈیا کی متعدد تربیتیں بھی دی ہیں۔

مجھے ان سے بات کرنے کا موقع ملا، اس ادھوری ملاقات کا احوال آپ کے گوش گزار کرتے ہیں۔

اپنے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ پیدا لاہور میں ہوئیں مگر بچپن میں ہی وہ اپنی فیملی کے ساتھ نائیجریا چلی گئی اور نائیجریا کے شہر لاگوس (جو کہ سمندر کنارے واقع ہے ) میں رہائش اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم بھی انہوں نے وہی مکمل کی اور پھر وہ دوبارہ پاکستان آ گئیں۔ جب کنیئرڈ کالج برائے خواتین یونیورسٹی سے بی۔اے کر رہی تھیں تو اسی دوران انکی انگریزی کی ایک ٹیچر نے انہیں انٹرنشپ کے بارے میں بتایا اور انہوں نے دی نیوز آن سنڈے میں کام کا آغاز کیا۔ اسی دوران انہیں وہ کام بہت پسند آیا اور ان کا رجحان صحافت کی طرف ہوگیا۔ انہیں لگا کہ یہ تو بہت دلچسپ شعبہ ہے ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے جن کے ذہن کھلے ہیں اور لکھنے کا انہیں ہمیشہ سے شوق تھا اس لئے انہوں نے سوچا کہ وہ صحافی بنیں گی۔ انہوں نے ماس کمیونیکشن میں بی۔ اے اور ایم۔اے کیا اور پہلی نوکری دی نیوز آن سنڈے کے ساتھ ہی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ بائیس سال کی تھیں جب انکی شادی ہوگئی، شادی کے بعد پانچ سال انہوں نے کراچی گزارے، وہیں انکی پہلی بیٹی پیدا ہوئی پھر اسکے وہ اسلام آباد منتقل ہوگئے۔

سسرال کے ماحول پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ کئی سال جوائنٹ فیملی میں رہیں۔ جوئنٹ فیملی سسٹم پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جوائنٹ فیملی سسٹم کے بہت فائدے ہیں اکثر یہ سوچا جاتا ہے کہ جوائنٹ فیملی میں پرائیویسی ملنا مشکل ہوتا ہے مگر ایسا نہیں ہے ۔ جوائنٹ فیملی میں بچوں کو پالنے اور بڑا کرنے میں مدد ملتی ہے خاص طور پہ تب جب آپ ایک ورکنگ ویمن ہوں ۔ آپ کافی حد تک اپنے بچوں کی فکر سے آزاد ہو کر اپنا کام کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صحافت جیسے مشکل پیشے میں اپنے قدم جمانے میں ان کے شوہر نے بہت ساتھ دیا کیونکہ بحیثیت خاتون اور ماں کے اس کام کو کرنا مشکل تھا اور خاندان کے اکثر افراد اس پیشے کو پہلے اتنا پسند بھی نہیں کرتے تھے۔ سسرال والوں کی شوہر اور والد کے ساتھ سے ہی انہوں نے صحافت میں اتنا کام کیا۔

اپنے خاندان کی ایک خوبصورت روایت بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے والدعید پہ قربانی کے پیسے مستحق افراد اور پلیٹ فارمز میں تقسیم کر دیا کرتے تھے ۔ اور خاص طور پہ ایدھی فائنڈیشن کو پیسے بھجوائے جاتے ہیں۔ انکی ساس بھی ہمیشہ صدقہ اور خیرات کے پیسے ایدھی فائنڈیشن میں بھجواتی تھی۔

اپنی ایک خوبصورت یاد بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انکی ایک نائیجریں دوست جس سے وہ پاکستان آنے کے بعد بچھڑ گئی تھی ، انہوں نے اسے ڈھونڈھنے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہ مل سکی ۔ پھر جب وہ بی بی سی ادرو میں کام کر رہی تھیں تو انکی ایک ساتھی آئرلینڈ سے تھی اور تب انہیں انکی دوست دوبارہ اپنی ساتھی صحافی کی وجہ سے مل گئی کیونکہ انکی ساتھی صحافی انکی دوست کو جانتی تھی۔ اپنے کرئیر میں جب انہوں نے سرتاج عزیز کا انٹرویو کیا اور وہ اس وقت ڈی فیٹو فارن منسٹر تھے اوراس انٹرویو کو قومی اور بین الا قوامی سطح پر بہت پزیرائی ملی تو اور اس وقت وہ بہت خوش تھی۔ اب بطور ماں انکو بہت خوشی ہوتی ہے جب بھی ان کی بیٹیوں کو کوئی کامیابی ملتی ہے۔

اپنی زندگی کا مشکل وقت یاد کرتے ہوئے انُ کا کہنا تھا کہ پچھلے دو سال انکی زندگی کا کافی مشکل وقت تھا کیونکہ دو سال پہلے انہوں نے اپنے والد کو کھویا اور انکی دوسری ماں یعنی ان کی ساس کا بھی انتقال ہو گیا۔ انکے خلاف کافی ٹرولنگ کمپئینز بھی چلی اور کچھ لوگوں نے انکی صحافتی کرئیر کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

اپنی زندگی کا ایک فخریہ لمحہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک سٹوری کور کی تھی جن کی وجہ سے پنجاب اسمبلی میں قانوں ساز ہوئی ۔ان کا کہنا تھا کہ میرا کوئی بھی کام جب اپنا دیر پا اثر چھوڑتا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب 2010 میں دوبارہ وہ صحافت کے پیشے سے منسلک ہوئیں تو وہ وقت انکی زندگی کا ایک مشکل دور تھا تب انکی بیٹیاں بہت چھوٹی تھی کیونکہ اس سے پہلے وہ فریلانسر کے طور پہ کام کر رہی تھی۔ تب دہشت گردی کے واقعات عروج پہ تھے اور وہ چھے دن کام کرتی تھیں، کبھی کبھی دن کے بارہ گھنٹے ان کے کام میں گزرتے تھے۔ اسکے علاوہ جب انکی بیٹی پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنی بیٹی کو دیکھا تو ان کا زندگی کا نظریہ بدل گیا اورانہوں نے سوچا کہ وہ اپنی بیٹی کو دنیا کی ہر چیز دیں گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اولاد ہونے بعد انسان اپنی اولاد کیلئے جینا شروع کرتا ہے اور انسان کی سوچ کا مرکز فقط اسکی اولاد بن جاتی ہے ۔

ان کا کہنا تھا جب انہوں نے صحافت شروع کی تو انکے خواب بہت چھوٹے چھوٹے تھے کہ وہ آرٹیکلز، کتاب لکھیں اورصرف لکھنے کے کام سے منسلک رہیں گی ۔ انہیں پبلک سپیکنگ سے بہت ڈر لگتا تھا۔ تاہم 2007 میں وہ ڈان ٹی وی سے منسلک ہوئیں اس وقت دہشت گردی کے بہت واقعات رونما ہورہے تھے۔ وکلاء کی تحریکیں چل رہی تھی اور لال مسجد کا آپریشن بھی ہوا تو اس وقت انہوں نے اپنے ڈر پہ قابو پا کر براڈکاسٹ جرنلزم کی طرف قدم رکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں اقتدار ملا تو وہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کو بحال کریں گی ۔ تاکہ جمہوریت کا پہیہ دوبارہ چل سکے۔ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ انہیں اقتدار کا کوئی شوق نہیں ۔ وہ کوئی ماہر معشیات یا سیاستدان نہیں لیکن وہ جانتی ہیں کہ ہمارا ملک بہت سے مسائل کا شکار ہے، ہماری معشیت تباہ حالی کا شکار ہےاور وہ جانتی ہیں کہ کسی ایک قدم سے سارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔

زندگی پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ چیلنجز قبول کریں اور کچھ مختلف کریں ۔اگر آپ چیلنج نہیں لیں گے تو زندگی سے کچھ بھی نہ سیکھ سکیں گے۔ زندگی اسی کا نام ہے کہ خطرات مول لیں۔ ان کے نزدیک زندگی کی خوبصورت شے دوستوں اور فیملی کی محبت اور ساتھ ہے ۔

نوجوان نسل کو پیغام دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج کے بچے ہم سے زیادہ باشعور ہیں ۔ اسکے باوجود ان کے پاس معلومات اور آگاہی زیادہ ہے مگر یہ بچے جذباتی طور پہ مضبوط نہیں ہیں ۔ زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے لچک دار رویہ اور استقامت بہت ضروری ہے ۔ یہی بات انسان کو آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔




مصنفہ سے ٹوئٹر پر AqsaYounasRana@ کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔