سی ای او پنجاب صاف پانی کمپنی وسیم اجمل کو 2018 میں PPRA قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
قومی احتساب بیورو( نیب) نے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی اور سینیئر بیوروکریٹ وسیم اجمل کو حکومتی خزانے کو ایک ارب روپے کا نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتارکیا تھا، نیب نے الزام لگایا تھا کہ وسیم اجمل نے نجی ادارے سے خاکروب کی بھرتیوں پر ایک ارب سے زائد کی ادائیگیاں کروائیں۔ نیب نے ان پر الزام لگایا تھا کہ ملزم نے غیرقانونی طور پر 2014 میں میسرز البیراک نامی کمپنی کو ویسٹ مینجمنٹ کا انتہائی مہنگے داموں ٹھیکہ دیا۔
تاہم نیب پراسیکیوشن ضمانت کے دلائل کے دوران بھی اس خلاف ورزی کو ثابت نہ کر سکا اور تقریباً 9 ماہ جیل میں گزارنے کے بعد وسیم اجمل کو فروری 2019 میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ کے بینچ نے قرار دیا تھا کہ نیب کی تمام کارروائیاں بددیانتی اور ثبوتوں سے خالی ہیں۔
بعد ازاں ان کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا گیا جہاں نیب نے کسی ملزم پر کسی مالی فائدہ یا غیر واضح اثاثوں کا الزام تک نہیں لگایا۔ الزامات اتنے کمزور تھے کہ تقریباً تین سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود کسی ملزم کے خلاف فرد جرم بھی عائد نہ ہو سکی۔ دفتر کی عمارت کے لیے غیر قانونی پیشگی ادائیگی پر ضمنی ریفرنس بھی دائر کیا گیا تھا تاہم عدالت نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں شریک ملزم سمیت بری کر دیا تھا۔
بدقسمتی سے فرضی الزامات پر مقدمے کی وجہ سے افسر کا کیرئیر بری طرح متاثر ہوا۔ افسر عدالت میں استدلال کرتا رہا کہ نیب نے درخواست گزار بننے سے انکار پر انہیں انتقام کا نشانہ بنایا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک ایسے اعلیٰ سرکاری افسر کو جیل میں ڈالنے کا ذمہ دار کون ہے جو عدالت میں ایک دن بھی کھڑا نہ ہو سکے۔