فرینڈلی اپوزیشن اور عمران خان

03:52 PM, 31 Jan, 2022

عظیم بٹ
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں اب تک جتنے بھی مسائل عمران خان کے لئے پیدا ہوئے، ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس کو کسی حزب اختلاف کی جماعت پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی ہو۔
عمران خان کی جہاں یہ بدقسمتی رہی کہ وہ برسر اقتدار آتے ہی بے شمار مسائل میں پھنس گئے جن میں کورونا صف اول کا مسئلہ بنا اور اب تک ہے، وہیں تحریک انصاف کی حکومت کے لئے یہ خوش قسمتی بھی رہی کہ ان کی چند بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کو بظاہر مضبوط نظر آنے والی اپوزیشن سے کوئی خطرہ پیدا نہیں ہوا۔
پاکستان میں یوں تو حزب اختلاف میں جب بھی کوئی سیاسی جماعت رہی تو ہر حکومت کہ لئے مسائل کے انبار لگانے اور پروپیگنڈہ کر کے اس کیخلاف بیانیے کو عوام میں ابھارنے میں کئی کامیابیاں حاصل کیں اور اسی اثناء میں بعض اوقات تو حکومتوں کو چلتا بھی کیا مگر خدا کا کرم کہیں یا ایمپائر کی محبت، عمران خان کے مقابلے میں پاکستان پر کئی مرتبہ حکومت کرنے والی کامیاب سیاسی جماعتیں حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے بھی اب تک حکومت کا ایک بال بھی بیکا نہیں کر سکی ہیں۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اکثریت کے حوالے سے ہمیشہ دو مختلف سیاسی جماعتیں ایک ہی وقت میں لیڈر آف ہائوس کی کرسی سنبھالے رہی ہیں، مگر یہ شاید واحد دور ہے جہاں عددی اکثریت یا اقلیت کسی کام کی نہیں ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اکثریت کے باوجود غیر حاضر ہو کر حکومت کے نمبرز پورے کروانے میں مصروف ہیں۔
آرڈیننس ہوں، سلامتی کے بل ہوں، چیف کی ایکسٹنشن کے معاملات ہوں یا سٹیٹ بینک کے حوالے سے متنازعہ بل ہو، کہیں بھی حکومت نے اب تک مات نہیں کھائی۔
اپوزیشن کے بلند وبانگ دعوے اور نعرے سڑکوں اور جلسوں میں تو بہت مقبول ہو رہے ہیں مگر منظر نامہ حقیقت میں کچھ اور ہی نظر آتا ہے۔ عوام کی ترجمانی کرنے والی پارلیمنٹ میں بزور بازو یا بزور پلاننگ برتری اب تک حکومت کی رہی ہے۔
یہ واحد دور حکومت ہے جہاں عوام کو لالٹین کے پیچھے حکومت نے کم اور اپوزیشن جماعتوں نے زیادہ لگایا ہوا ہے۔ حزب اختلاف کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس ملک میں وزیراعظم کی کرسی پر رہنے والا ایک شخص یوسف رضا گیلانی سینیٹ کا اپوزیشن لیڈر ہے مگر پھر بھی غیر حاضر ہو کر حکومت کے حق میں بل پاس کروانے کا ذمہ دار بنا ہے۔
یہ وہی پیپلز پارٹی ہے جو پارلیمنٹ اور پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے کے دعوے کرتی ہے اور اپنے ممبران کو حکومت مخالف بل میں پارلیمان کی حاضری یقینی بنانے کی پابند تک نہ کر سکی۔
دوسری جانب اس وقت حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کا عالم یہ ہے کہ بانی ملک سے باہر ہے۔ صدر کی سینئر نائب صدر سے نہیں بنتی اور پارٹی کے فیصلے کوریر سروس کے محتاج ہیں۔
پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے ادوار میں یوں تو یہ پرانی روایت رہی ہے کہ 4 سال انتہا کی کرپشن کرو اور آخری سال میں سات سے 8 میگا پراجیکٹس عوام میں پیش کر کے عوام کو بیوقوف بنایا جائے۔ تحریک انصاف کا بھی وہ وقت بس اب شروع ہونے کو ہے۔ مگر افسوس کے عمران خان کو اس بار بھی جلسے دھرنے والی سیاست میں کوئی ٹف ٹائم نہ دے سکے گا۔
2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے وقت جب نواز لیگ کی علیحدگی ہوئی تو تب سے لے کر آخر تک ایک ٹرم ایجاد کی گئی کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے باریاں لگائی ہوئی اور "فرینڈلی اپوزیشن" کا کردار ادا کرتیں ہیں۔ صرف شور مچاتی ہیں، مگر حکومت کے خلاف نہیں ہیں۔
موجودہ عمرانی دور حکومت دیکھ کر واضح ہوتا ہے کہ فرینڈلی اپوزیشن کیسی ہوتی ہے۔ عوام کو پہلے مہینے سے عمران خان کے گھر جانے کی نوید سنانے والی دونوں جماعتیں آج بھی اتنی ہی ڈھٹائی سے ساڑھے 3 سال بعد کہتی ہیں کہ حکومت بس جانے والی ہے مگر نہ اسمبلیوں میں ان کا مقابلہ کر پاتی ہیں نہ سڑکوں پر عوام کا اعتماد۔
فرینڈلی اپوزیشن کے فوائد تو حزب اختلاف کی جماعتوں کو بخوبی معلوم ہیں، مگر شاید وہ یہ نہیں جانتیں کہ اب ان سیاسی جماعتوں کی حرکات عوام بھی جان چکے ہیں۔ ایک فضا بنائی جا رہی ہے کہ پنجاب میں اگلے انتخابات میں نواز لیگ اور وفاق میں ایم کیو ایم کی مدد سے پیپلز پارٹی براجمان ہوگی۔ خیبر پختونخوا میں عمران حکومت برقرار رہے گی۔ یہ وہی فضا ہے، جسے صرف پھیلایا جاتا ہے اور بعد ازاں یہ انتخابات میں خود بخود اثر انداز ہو جاتی ہے۔
مزیدخبریں