ڈاکٹر محمد علی خان نے اپنے بیان میں کہا کہ شہریوں کی عزت، جان اور مال کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ریاست آج تک اپنی اس بنیادی ذمہ داری میں ناکام ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اندوہناک بات یہ ہے کہ ہماری اپنی ریاستی پالیسیاں اس کشت و خون کا سبب بن رہی ہیں۔ پچھلی چار دہائیوں سے ریاست کے سٹریٹجک مفادات کے نام پر گروہی سیاسی اور معاشی مفادات کی خاطر بین الاقوامی پراکسی جنگوں کا حصہ بن کر پختونوں کی سرزمین پر کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا جا رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کے مذموم عزائم اور مفادات کے ساتھ ساتھ ہماری ریاست کے اندر جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان اقتدار کیلئے رسہ کشی نے بھی دہشت گردی کے عنصر کو مزید مشکوک اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ لہٰذا اس کا تدارک اور حل صرف نیم دلانہ انتظامی اقدامات سے ممکن نہیں ہے۔ جب تک ریاست اپنی سکیورٹی، خارجہ و داخلہ پالیسیاں جنہوں نے یہ گھمبیر صورت حال پیدا کی ہے، کو یکسر تبدیل نہ کرے صورت حال میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ قومی سطح پر اس کے حال کیلئے دو دستاویزات موجود ہیں جو اتفاق رائے سے منظور ہوئی ہیں۔ ایک نیشنل ایکشن پلان جو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں نے منظور کیا تھا اور دوسرا بنوں قومی جرگہ کی متفقہ قراردادیں ہیں جو پختونوں کے ہر مکتبہ فکر کے نمائندوں نے پچھلے سال منظور کی تھیں۔
ڈاکٹر علی نے یاد دلایا کہ اس ضمن میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے مارچ 2022 میں بنوں کے مقام پر تین روزہ قومی جرگہ کا انعقاد کیا تھا جس میں پاکستان میں رہنے والے پختونوں کے ہر مکاتب فکر کے نمائندوں نے شرکت کر کے دیگر مسائل کے علاوہ سیاسی اور دہشت گردی کے مسائل پر غور و فکر کیا تھا اور اس کے حل کیلئے قراردادوں کی شکل میں تجاویز بھی پیش کی تھیں۔