رپورٹ کے مطابق گذشتہ مالی سال کے لیے سٹیٹ بینک نے کہا کہ مالی سال 2020 کے لیے مالی خسارہ جی ڈی پی کے 9 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے جہاں پہلے تین سہ ماہیوں میں یہ 4 فیصد تھا۔
سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کی گئی اکانومی-تیسری سہ ماہی رپورٹ 2019-20 کے مطابق مالی سال 2019 میں کم معاشی نمو کی سب سے بڑی وجہ کرونا وائرس تھا جس نے حکومت کے لیے مالی سال 2021 کو بھی چیلینج بنا دیا ہے۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2021 کے دوران حقیقی جی ڈی پی میں 2.1 فیصد اضافے کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے طلب میں متوازی بہتری کی ضرورت ہوگی۔ تاہم اس کے لیے مالی سال 2021 کے بجٹ میں مختص رقم کے مطابق پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام موثر استعمال کی ضرورت ہے جبکہ سٹیٹ بینک سکیموں میں کاروباری برادری اور صارفین دونوں کی لیکویڈیٹی ضروریات کی تائید جاری ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان سکیموں کی طلب میں اضافہ، کرونا وائرس کے سبب معاشی ایجنٹوں کو درپیش تناؤ کی نشاندہی کررہا ہے جبکہ منظوری کی بڑھتی ہوئی تعداد سے لیکویڈیٹی سپورٹ میں اضافہ ہورہا ہے جو وبائی مرض پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ مالی سال 2021 کے لیے مجموعی طور پر 65 کھرب 70 ارب روپے آمدنی کا ہدف چیلنجنگ ہے کیونکہ مالی سال 2020 میں کم معاشی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ جیسے ہم مالی سال 2021 میں قدم رکھ رہے ہیں معاشی امداد کے لیے انتہائی ضروری پیکیج کی فراہمی آنے والے مہینوں میں حکومتی اخراجات کو بڑھائے گی۔ جہاں موجودہ اخراجات جیسے سود کی ادائیگی اور پنشنز سے ریونیو کا بڑا حصہ خرچ ہونے کی توقع ہے وہیں حکومت کو قرضوں کے انتظام کی ایک موثر پالیسی کی ضرورت ہے جبکہ مالی سال 2021 کے دوران بجٹ کے مطابق پی ایس ڈی پی کے اخراجات کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔
اس میں مزید کہا گیا کہ افراط زر کا آؤٹ لک حوصلہ افزا ہے تاہم خطرات سے پاک نہیں۔ طلب پر دباؤ بڑھ گیا ہے اور پیٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے جس سے مالی سال 2020 کے اختتام تک 7 سے 9 فیصد تک افراط زر کی پیش گوئی کی گئی ہے۔