لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ 2 سالوں میں دنیا میں اتنے کاروبار بند نہیں ہوئے جتنے عمران خان کی حکومت میں بند ہوئے۔ ہمیں آپ سے کوئی سہولت نہیں چاہیے، پاکستان کے عوام کو سہولت اور جینے کا حق دیں، آج جس ملک کی معیشت ختم ہوجاتی ہے اس کا دفاع بھی ختم ہوجاتا ہے۔
احسن اقبال نے کہا تھا کہ عمران خان این آر او کی تسبیح پڑھ کر پاکستان کی معیشت کی تباہی پر پردہ نہیں ڈال سکتے، آج پاکستان کے دفاع کو خطرہ ہے، بھارت دفاع کا نیا ساز و سامان خرید رہا ہے اور ہمارے پاس بجٹ میں جاری اخراجات پورے نہیں ہو پا رہے۔ ہم نے 5 سال میں 3 ہزار 200 ارب روپے سے ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جن سے ملک کو ترقی کی نئی سطح پر لے آئے اور آج یہ کہتے ہیں کہ بیمار معیشت ملی۔
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما نے کہا کہ کسی سے جا کر پوچھ لیں کہ 2 سال پہلے کا پاکستان بہتر تھا یا عمران خان کا نیا پاکستان بہتر ہے، تاجر، سرمایہ کار، ڈاکٹر، مزدور، انجینئر ہر بندہ بتائے گا کہ 2 سال پہلے امید تھی اور آج ناامیدی اور مایوسی ہے۔ حکومت نے عوام سے جینے کا حق چھین لیا ہے، آج ملک سے پیسہ نہیں بھاگ رہا بلکہ ٹیلنٹ بھی جارہا ہے جس سے ملک کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن نیب کے قانون کو بلیک میل کررہی تھی، ہم نے بلیک میل نہیں کیا اصل بات یہ ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پر حکومت کی چوری پکڑی گئی۔ ہم نے حکومت کی چوری پکڑی ہے جو یہ ایف اے ٹی ایف کے نام پر کررہے تھے، حکومت جو بل پاس کررہی تھی لیکن اس کا دفاع نہیں کرسکی اور یہ بھارت میں مقبوضہ کشمیر سے بھی کالا قانون پاکستان میں نافذ ہونے جارہا تھا جس میں اکنامک ٹیرارزم کے حوالے ہر بزنس مین، تاجر، کاروباری شخص معاشی دہشت گرد بن کر تباہ و برباد ہوجاتا، وہ دنیا بھر میں کہیں کاروبار نہیں کرسکتا تھا۔ حکومت اس ملک میں ایسا قانون مسلط کررہی تھی جس کے تحت کوئی بھی صحافی 6 مہینے کے لیے اندر ہوجاتا اور اسے بھی دہشت گرد قرار دے دیا جاتا، کوئی بھی مخالف 6 ماہ کے لیے اندر ہوجاتا اور اس کے پاس آئین اور قانون کا کوئی تحفظ نہیں تھا کہ وہ کس کال کوٹھڑی میں جاتا کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ 6 ماہ کے لیے حکومت کا مخالف لاپتا شخص بن گیا ہے۔
احسن اقبال نے مزید کہا کہ حکومت یہ قانون لے کر آئی تھی اور ہم نے یہ چوری پکڑی تھی اور وہ ایف اے ٹی ایف کے نام پر ایسا کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کی چوری کو چھوڑیں گے نہیں، بین الاقوامی برداری کے سامنے پیش کریں گے، ہم امریکا، یورپی یونین کے ممالک سے پوچھیں گے کہ کیا آپ نے حکومت کو ایسا کالا قانون بنانے کی کوئی تجویز دی تھی اور اگر نہیں دی تھی تو حکومت سے کم از کم یہ سوال ضرور پوچھیں کہ آپ کا نام لے کر حکومت 22 کروڑ عوام کو اندھیروں میں کالے قانون کی رسی میں جکڑنے کا منصوبہ کیوں بنارہی تھی۔