گزشتہ چند روز سے کراچی میں مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور یہ بارشیں تیسرے اسپیل میں داخل ہو چکی ہے جس سے بارشوں کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے وہیں جگہ جگہ سڑکوں و گلیوں میں کھڑے پانی، اُبلتے گٹر اور بپھرے ندی نالوں سے شہریوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ رہی سہی کسر بجلی کے فرسودہ نظام نے بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پوری کردی. کراچی کی ابتر صورتحال پر شہری سیخ پا ہیں جس کا اظہار سوشل میڈیا پر پُر زور انداز میں کیا جارہا ہے، لیکن اس سے صوبائی حکومت کے مخالفین بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور سندھ حکومت پر سوشل میڈیا کے ذریعے ایک مخصوص پروپیگنڈہ کررہے ہیں اس پروپیگنڈے میں خاص کر وفاقی حکومت کی منتخب جماعت اور ان کے رہنما و کارکنان شامل ہیں جو شہر کی ابتر صورتحال پر پوائنٹ اسکورنگ کررہے ہیں اور گزشتہ برسوں کی بارشوں کی تصاویر اور ویڈیوز مختلف سوشل میڈیا سائٹس پر اپلوڈ اور شئیر کررہے ہیں تاکہ صوبائی حکومت کی نااہلی ثابت کی جاسکے.
اس پروپیگنڈہ مہم میں پاکستان کا میڈیا بھی ہاتھ دھو رہا ہے جیسا کہ وہ بھی اس مہم کا حصہ ہوں. ملک کے سب سے بڑے اور نامور نجی ٹی وی چینل نے کراچی پر رپورٹنگ کی لیکن صرف کراچی کی ابتر صورتحال پر تبصرہ و تنقید کی جبکہ لاہور میں سب اچھا ہے کا راگ الاپ دیا حالانکہ لاہور میں بھی کراچی جیسی صورتحال ہے اور شہری نکاسیِ آب کے سنگین مسائل کا شکار ہیں. ایک اور نجی ٹی وی چینل جو کہ وفاقی حکومت کا عزیز سمجھا جاتا ہے نے بھی اسی طرح کی رپورٹنگ کی اور کراچی کی ابتر صورتحال کا ذمہ دار صوبائی حکومت کو ٹھہرایا اور اس پر یک طرفہ نشریات دیکھاتا رہا. ایک اور نجی ٹی وی چینل نے اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ایسی تصاویر اور ویڈیوز چلا دیں جو کئی برس پرانی تھیں اور یہی پرانی تصاویر اور ویڈیوز صوبائی حکومت کے مخالفین سوشل میڈیا پر پہلے سے چلا رہے تھے جس پر سندھ کے ایک صوبائی وزیر نے سوشل میڈیا پر حقائق کے ساتھ شکوہ بھی کیا جس پر نجی ٹی وی چینل کو وضاحتی جوابِ شکوہ و تنقید کرنا پڑ گئی.
کراچی کے مسائل کا ایک مسئلہ نکاسیِ آب ہے حالانکہ دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک جن میں متحدہ عرب امارات کا شہر دبئی، سعودی عرب کا شہر ریاض، بھارت کا شہر ممبئی اور بنگلا دیش کا شہر ڈھاکہ بھی برسات میں اس مسئلے سے دوچار رہتے ہیں. لیکن اس مسئلے پر وفاق سارا ملبہ سندھ حکومت پر جبکہ سندھ حکومت بلدیاتی حکومت و ماضی پر جبکہ بلدیاتی حکومت اختیارات و فنڈز کی کمی پر ڈال دیتے ہیں. نکاسیِ آب کی بہتر پلاننگ اور منیجمنٹ نہ ہونے سے شہری ہر سال مون سون میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں لیکن یہ مسئلہ اتنا سادہ بھی نہیں، اس مسئلے کی بنیاد 80ء کی دہائی میں پڑی جب آمر دور میں کراچی پر قبضے کی جنگ چھیڑی گئی اور شہر کو سیاسی و لاثانی بنیادوں پر بغیر کسی موثر پلاننگ کے وسیع کیا گیا۔
بعدازاں یہی حکمتِ عملی سن دو ہزار میں ایک بار پھر آمر کے دور میں شروع ہوئی اور شہر کو قلیل مدت میں توسیع دی گئی اور بلند و بالا عمارتیں، سرکاری و غیر سرکاری زمینوں اور پارکوں پر قبضے اور چائنا کٹنگ کی گئی۔ حتیٰ کہ ندی نالوں پر بھی چائنا کٹنگ کرکے آبادکاری کی گئی اور نئے علاقے نئی سڑکیں قلیل مدت میں وجود میں آگئی، یہ سب سرکاری سرپرستی میں ہوتا رہا۔ اس دیکھا دیکھی میں کنٹونمنٹ بورڈ بھی پیچھے نہ رہا اور اس نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو ڈالے اور اپنے کنٹونمنٹ علاقوں میں تیزی سے پلاٹنگ کرکے آبادکاری کی اور ان میں بلند و بالا عمارتوں کا جال بچھا دیا گیا۔ یہ سب کچھ جب ہو رہا تھا تب سرکاری سرپرستی میں آبادکاروں کو یہ خیال نہ آیا کہ شہر میں ایمرجنسی رین ڈرین ایج سسٹم بھی ہوتا ہے جو بارشوں میں نکاسیِ آب میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے سارا ملبہ صرف موجودہ حکومتِ سندھ پر ڈالنا درست نہیں، اس میں موجودہ وفاقی حکومت، بلدیاتی حکومت، کنٹونمنٹ بورڈز اور گزشتہ حکومتی ادوار بھی برابر کے شریک ہیں۔
اب جبکہ شہر وسیع اور گنجان ہو چکا ہے اور اس کو وسیع کرنے کے مراحل اب بھی جاری ہیں لیکن اب بھی نکاسی آب کی حکمتِ عملی مرتب نہیں کی جارہی، اب بھی سڑکوں گلیوں اور عمارتوں کے جال بُنے جا رہے ہیں لیکن نکاسیِ آب پر کوئی کام نہیں کیا جارہا. کراچی کے چودہ وفاقی حلقے وفاق کی حکومتی جماعت کے پاس ہیں۔ صدرِ مملکت اور گورنر سندھ دونوں کا تعلق کراچی سے ہے اور وفاق کی منتخب جماعت سے ہیں، اس سب کے باوجود وفاق عملی کام کرنے اور کراچی کو اپنا سمجھنے کے بجائے اس کے مسائل پر سیاست کر رہا ہے اور صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر شہری مسائل حل کرنے کے بجائے صوبائی حکومت پر آئے روز مختلف حربوں سے تہمت لگانے میں مصروفِ عمل ہے. دوسری طرف حکومتِ سندھ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ شہر کے مسائل پر اپنی مدد آپ کے تحت توجہ دے اور کراچی میں ایک مضبوط نکاسیِ آب کا سسٹم وجود میں لائے تاکہ مخالفین کو سیاسی پوائنٹ اسکورننگ کا موقع نہ مل سکے اور صوبائی حکومت پر شہری اعتماد بحال ہوسکے۔
اگرچہ صوبائی حکومت مسائل کے حل کی طرف سنجیدگی سے عمل پیرا ہوتی ہے تو اس کے نتائج انہیں عام انتخابات میں کراچی کے باسی اپنے حقِ رائے دہی سے دیں گے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی کے لوگ سیاسی شعور سے اجاگر ہیں پس ایک مخلص قیادت چاہیے جو کراچی اور اس کے باسیوں کو انتخابات کے بعد بھی اپنا سمجھے۔