ٹوئیٹس، آزادی اظہار رائے اور قانون توہین عدالت

08:53 PM, 31 Jul, 2020

زعیم ممتاز بھٹی
توہین عدالت کی جامع تعریف آئین پاکستان، 1973 کے آرٹیکل 204 میں کی گئی ہے اور اس کی مزید تشریح و توضیح، توہین عدالت آرڈیننس مجریہ، 2003 میں کی گئی ہے، جس میں فوجداری توہین عدالت اور دیوانی توہین عدالت کے تصورات کو عليحده عليحده کر کے پیش کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں عدلیه کی عزت و تكريم برقرار رہے، بقول انیس

انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

ایک لحاظ سے عدلیہ، شیشے کے گھر میں بیٹھی ہوتی ہے۔ اس کے جج نہ تو آئے روز پریس کانفرنسیں کر کے اپنے فیصلوں کا دفاع کر سکتے ہیں اور نہ اپنے اوپر ہونے والی بلا جواز تنقید کا جواب دے سکتے ہیں۔ ایک لحاظ سے توہین عدالت کا قانون انہیں یہ اعتماد بخشتا اور تحفظ فراہم کرتا ہے کہ اگر کسی نے ان پر کیچڑ اچهالا يا ان کے کام کرنے کی راہ میں روڑے اٹکائے يا انہیں بے توقیر کیا یا عوام کی نظروں میں ان کو گرانے کی کوشش کی گئی یا ان کے کیے گئے احکامات/فیصلوں کا تمسخر اڑایا یا ان پر عملدرآمد کرنے سے انکار کر ديا تو پھر توہین کے مرتكب اشخاص سے باز پُرس کی جا سکے اور فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کو یقینی بنایا جا سکے تاکہ عوام کے دلوں میں ان کا احترام برقرار رہ سکے۔

آئین اور اس کے تحت بنائے گئے قانون کے تحت توہین عدالت کے مرتکب کو چھ ماہ قید اور پانچ ہزار روپے تک سزا دی جا سکتی ہے۔ اگر جج وسیع القلب ہو، اس کے شانے بھی چوڑے ہوں تو وہ contemner یعنی توہینِ عدالت کے مرتکب شخص کو کو محض تنبیہ و فہمائش کر کے معاف کر دیتا ہے، جب کہ کچھ جج صاحبان تا برخاست عدالت تک contemner کو عدالت میں بیٹھے رہنے کی سزا دیتے ہیں تاکہ اس کو اس دوران عدالت کے کام کرنے کے طور طریقے سے بھی آگاہی حاصل ہوتی رہے اور وہ اپنے جرم کا اعادہ کرنے سے بھی مجتنب رہے۔

ماضی قریب میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو تا برخاست عدالت سزا دی اور نتیجتاً وہ آئین کے آرٹیکل 63(1)(G) کے تحت اسمبلی کی رکنیت سے بھی محروم ہو گئے اور انہیں وزرات عظمیٰ سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ ان کو مخص اس بنا پر سزا دی گئی کہ انہوں نے سوئس حکام کو عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے مطابق، اس وقت کے صدر پاکستان، جناب آصف علی زرداری صاحب کے مبینہ سوئس اکاؤنٹس کے حوالے سے ایک خط تحریر کرنے اور روانہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کی ایک کڑی یہ بھی تھی کہ اس وقت کے وزير قانون، بابر اعوان (حال میں وزیر اعظم عمران خان کے مشیر قانون) کو بھی زرادری صاحب کی وکالت کا شوق چرایا تو وه بھی وزرات کا قلمدان چھوڑ کر اور کالا کوٹ پہن کر عدالت میں پہنچ گئے۔ ایک سماعت کے بعد، عدالت کے باہر، ٹیلی وژن کے کیمروں کے سامنے انہوں نے اپنی جرأت آزمائی اور یہ مشہور زمانہ جملہ پھینکا کہ ’نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا‘ اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ رولز، 1980 کے تحت ان کا وکالت کا لائسنس ہی معطل کر دیا، جو غالباً دو سال کے بعد بحال ہوا۔

حال ہی میں نہال ہاشمی، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کو آئین کے متذكره آرٹیکل 63 کے تحت پانچ پانچ سال کے لئے بھی اسمبلی کا امیدوار بننے سے نا اہل قرار دیا گیا۔ قصہ مختصر، عدالت کی توہین کا ارتکاب کرنے والے شخص کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ آئین کے آرٹیکل 204 کے علاوه بھی مختلف آئینی شقوں اور مختلف قانونی دفعات کو حرکت میں لاتے ہوئے اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہے کہ زرداری صاحب نے توہین عدالت کے قانون کو بے اثر کرنے کے لئے توہین عدالت کا نیا قانون 2011 میں متعارف کروایا۔ اس کی اہمیت و مضمرات کو بھانپتے ہوئے، درجنوں پیٹشنوں پر سپریم کورٹ نے اس قانون کو آئین سے متصادم قرار دے کر سرے سے ہی مسترد کر دیا اور اس کے دانت کھٹے کرتے ہوئے پرانے قانون توہین عدالت آرڈیننس، 2003 کو بحال کر دیا۔

حالیہ دنوں میں یہ بحث پھر سے اس لئے شروع ہوئی ہے کہ مطيع الله جان، ایک بے باک اور نڈر صحافی کو ایک مبینہ توہین آمیز ٹویٹ پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس دیا ہے، جب کہ دوسری طرف انڈین سپریم کورٹ نے بھی ایک سینیئر وکیل پرشانت بھوشن کے دو ٹوئيٹس پر تعطیلات کے باوجود، فی الفور توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دنیا بھر کے قانونی ماہرین یہ دہائی دیتے آ رہے ہیں کہ توہین عدالت کا قانون فرسودہ اور اذکار رفتہ ہے۔ یہ برطانوی بادشاہت کی یاد گار ہے۔ بادشاه خود ہی واضع قانون Law-giver ہوتا تھا اور خود ہی سب سے بڑی عدالت - لہٰذا اس کے فیصلوں کو نظر انداز کرنے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ بادشاه سلامت کی براه راست توہین کی گئی ہے۔ لیکن اب اس قانون کے مؤجد خود اس قانون کو آزادی اظہار رائے کے خلاف سمجھتے ہیں اور عملی طور پر یہ قانون قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ تاہم، یہاں تک پہنچتے پہنچتے برطانوی جج صاحبان کو چند معرکتہ الارا فیصلے لکھنے پڑھے ہیں۔ قانون کی دنیا میں Lord Denning کے نام سے کون واقف نہیں ہے۔ انہوں نے قانون توہین عدالت کی وضاحت کرتے ہوئے، ایک موقع پر یہ کہا:

The law of Contempt of Court "should not be used as a means to uphold our own dignity. This must rest on surer foundations. ......We must rely on our conduct itself to be its own vindication."

یعنی توہینِ عدالت کا قانون ہماری اپنی عزتوں کو برقرار رکھنے کے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری توقیر اس سے کہیں زیادہ ٹھوس بنیادوں کی متقاضی ہے۔ ہمیں اپنے کردار سے اس کو یقینی بنانا چاہیے‘‘۔

جسٹس Brewer، ایک امریکی جیورسٹ نے 1898 میں کس قدر فہم و فراست کا ثبوت دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ

’’یہ ہماری بھول ہے کہ اگر سپریم کورٹ پر کوئی نقد و جرح نہ کرے تو اس سے، اس ادارے کی عزت وقار میں اضافہ ہوگا، ججوں کی زندگی اور کردار پر سب کی ہر وقت نظر رہنی چاہیے اور ان کے صادر کیے گئے فیصلوں پر تنقید کا پورا پورا حق ہونا چاہیے۔ وه زمانہ لد چکا، جب کسی شخص یا کسی گروه کو تقدس کا ہالہ پہنایا جاتا تھا۔ تنقيد کرنے والے سب ایک جیسے نہیں ہوتے اور بعض ناقدین اپنی شخصیت کو ہی مجروح کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر بھی ہر قسم کی تنقید کا خنده پیشانی سے سامنا کرنا چاہیے۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں تو بدبو اور موت ہی جنم لیتی ہے، جب کہ زندگی اور صحت چلتے ہوئے پانیوں میں ہی نمو پاتی ہے۔‘‘

ٹھیک ٹھیک انگریزی الفاظ یہ ہیں:

"It is a mistake to suppose that the Supreme Court is either honoured or helped by being spoken of as beyond criticism. On the contrary, the life and character of the justices should be the object of constant watchfulness by all and its judgments subject to the freest criticism. The time is past in the history of the world when any living man or body of men can be set on a pedestal and decorated with a halo. True, many criticisms maybe, like their authors devoid of good taste; but better all sorts of criticism than no criticism at all. The moving waters are full of life and health, only in the still waters is stagnation and death." [Government by Injunction, 15, Nat. Corp. Rep. 848, 849]

انڈین سپریم کورٹ کے معروف جج، جسٹس کھنہ نے ایک موقعہ پر یہ لكھا کہ عدلیہ کا اصل ہتھیار اس کا اجلا چہره ہوتا ہے، وہ عزت و تكريم ہے، جو اسے عوام بخشتے ہیں۔ توہین عدالت کے قانون سے یہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔

توہین عدالت کے قانون میں ایک عجيب الجھن ہے کہ عدالت خود ہی شکایت کننده ہوتی ہے، خود ہی ٹرائل کرتی ہے اور خود ہی منصف ہوتی ہے۔ ایسے میں بے چارے مبینہ contemner کے لئے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ سراسر عدالت کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، اور بسا اوقات تو معافی مانگنے کے باوجود اسے معاف نہیں کیا جاتا۔

بجا کہ انصاف کے ازلی و ابدی اصول کے تحت مبینہ Contemner کو صفائی کا موقع دیا جاتا ہے اور اسے اپنی فریاد کرنے اور دادستان سنانے کی بھی سہولت دی جاتی ہے، اور آئین کے آرٹیکل 10-A پر بھی من و عن عمل کیا جاتا ہے۔ تاہم، اس تاثر کو زائل کرنا مشکل ہے کہ یہ سارا انتظام محض اشک شوئی ہوتی ہے۔ ایسے میں انصاف رہے اور توازن بھی برقرار رہے، کس قدر مشکل ہے۔ یہیں سے المیے جنم لیتے ہیں اور داستانیں شروع ہوتی ہیں۔ ابھی تک یہ نہیں دیکھا گیا کہ مبینہ contemner کو سزا دینے پر کبھی عدلیہ کی عزت و تكريم میں اضافہ ہوا ہو۔

اگر آزادی تحریر و تقریر کے آئینی حق کو بھی برقرار رکھنا ہے، لوگوں کو اپنی بھڑاس نکالنے کا بھی موقع فراہم کرنا ہے اور سوشل میڈیا پر نوخیز آوازوں کا بھی گلا نہیں گھونٹنا، تو پھر بزرگ بن کر نادان بچوں کو سمجھانے بجھانے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ تلوار میان میں رہے تو بہتر ہے۔ تلوار کو بار بار لہرانے سے اس کا ڈر اور خوف ختم ہو جاتا ہے، ویسے بھی گلی سے گزرتے ہوئے اگر کوئی دیوانا آپ کا گریبان پکڑنا چاہے تو آپ اپنا دامن بچا کر آگے نکلنے کی جستجو کرتے ہیں، نہ کہ اسے پکڑ کر دبوچ لیتے ہیں اور مار مار کر ادھ موا کر دیتے ہیں۔ اس دوران اگر کوئی عقل مند شخص وہاں سے گزرے، تو وہ دیوانے کو نہیں، فرزانے سے استفسار کرے گا کہ وہ کیوں فرزانگی چھوڑ بیٹھا۔ معاملات کو بگاڑنے کی بجائے، فہم و فراست کا ثبوت دینا چاہیے۔ معاف کرنے اور نظر انداز کرنے کو ہی ہر دور میں سراہا جاتا ہے۔

مزیدخبریں