جو کرپشن اور سنگین بدعنوانی ہے۔ شیری رحمان نے لکھا کہ خطے کے ممالک میں سب سے زیادہ مہنگائی پاکستان میں ہے اور نہ صرف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 53 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یوٹیلیٹی سٹورز پر بھی اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
کیا شیری رحمان کی جانب سے اُٹھایا گیا نکتہ درست ہے اس کا جائزہ لینےکے لئے نیا دور میڈیا نے تحقیقات کی ہے۔
معیشت پر نظر رکھنے والے صحافی شہباز رانا کے مطابق حکومت نے اسی ماہ وفاقی کابینہ کےایک اجلاس میں پیپرا قوانین کو بالائے طاق رکھنتے ہوئے وسیع تر قومی مفاد میں تیس لاکھ میٹرک ٹن گندم جس کی مالیت سات سو پچیس ملین ڈالرز ہے کی منظوری دے دی ہے۔
شہباز رانا کے مطابق وفاقی کابینہ نے اس منظوری کو ایجنڈے کا حصہ نہیں بنایا بلکہ ایک سمری کے زریعے اس کو پیش کیا تاکہ اس کی منظوری دی جاسکے۔ شہباز رانا کے مطابق حکومت نے اس منظوری کو پیپراقوانین سے چھوٹ دی اور پیپرا بورڈ کی ہدایات پر ایسے کیا گیا۔ صحافی شہباز رانا کے مطابق حکومت نے جون کے ماہ میں چالیس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی تھی تاکہ ائندہ ٹارگٹ کو پورا کیا جاسکے اور یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب ملک میں 27 اعشاریہ 3 ملین میٹرک ٹن گندم کی پیداوار اسی سال ہوئی ہے۔ صحافی شہباز رانا کے مطابق پیپرا قوانین سے چھوٹ ایسے وقت میں دی جاتی ہے جب ایمرجنسی کی صورتحال ہو مگر موجودہ صورتحال میں ایسا نہیں لگ رہا کہ کوئی ایمرجنسی ہے ۔
شہباز رانا کے مطابق حکومت نے گزشتہ مالی سال میں 36 لاکھ میٹرک ٹن گندم کو درآمد کیا تھا جن کی مالیت 983 ملین ڈالرز ہے ۔
قوانین کے مطابق پیپرا بورڈ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ عارضی طور پر وفاقی حکومت کو خریداری اور درآمد کے لئے پیپرا قوانین سے چھوٹ دی اور موجودہ صورتحال میں بھی یہی ہوا ہے۔