فلسطین کی عسکری تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے جہاں انہیں نشانہ بنایا گیا۔ حملے میں اسماعیل ہنیہ اپنے ایک محافظ سمیت ہلاک ہو گئے۔ حماس کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اسرائیل کی جانب سے کیا گیا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے حملے پر اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
اسماعیل ہنیہ کون تھے؟
اسماعیل عبدالسلام ہنیہ، جن کو عبدالعبد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ حماس کے سیاسی سربراہ تھے جو 2006 میں وزیر اعظم بھی رہے۔
1989 میں انہیں اسرائیل نے تین سال کے لیے قید کر دیا گیا تھا جس کے بعد انہیں دیگر حماس رہنماؤں کے ساتھ لبنان جلاوطن کر دیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ تقریباً ایک سال تک جلاوطن رہے۔ ایک سال بعد وہ غزہ لوٹے اور 1997 میں انہیں حماس کے بانی رہنما شیخ احمد یاسین کے دفتر کا سربراہ متعین کر دیا گیا۔
16 فروری 2006 میں حماس نے انہیں فلسطین کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا اور 20 فروری کو انہوں نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔ 2006 میں اسرائیلی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کے دفاتر کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں تین محافظ زخمی ہوئے لیکن اسماعیل ہنیہ محفوظ رہے۔
ایک سال بعد فلسطین کے صدر محمود عباس نے انہیں برطرف کر دیا جب القسام بریگیڈ نے غزہ کی پٹی میں سکیورٹی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اسماعیل ہنیہ نے اس عمل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت فلسطینی عوام کے لیے کام کرتی رہے گی۔ 6 مئی 2017 کو اسماعیل ہنیہ کو حماس کی شوریٰ نے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا۔
2018 میں امریکہ نے انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندیاں لگا دیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کے حماس کے عسکری ونگ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور وہ شہریوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے حامی ہیں۔
اسماعیل ہنیہ نے 16 سال کی عمر میں اپنی کزن امل ہانیہ سے شادی کی اور ان کے 13 بچے تھے جن میں 8 بیٹے اور 5 بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے 3 بیٹے اور 4 پوتے، پوتیاں 10 اپریل 2024 کو غزہ کی پٹی پر عید کے دن ہونے والے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
اس حملے کے بعد اسماعیل ہنیہ نے کہا تھا کہ اس واقعے سے حماس کے مطالبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد حماس کے ایک سینیئر عہدیدار نے کہا ہے کہ تنظیم کے سیاسی سربراہ کی ہلاکت کا بدلہ لیا جائے گا۔ حماس کے زیرِ انتظام الاقصیٰ ٹیلی ویژن چینل کے مطابق موسیٰ ابو مرزوق نے اس حملے کو 'بزدلانہ کارروائی' قرار دیا ہے۔
اسرائیل کا ردعمل
اسرائیل کی جانب سے اب تک اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم کچھ اسرائیلی سیاست دانوں کی جانب سے اس صورت حال پر ردعمل سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیر ورثہ ایمیچی ایلیاہو نے ایکس پر لکھا کہ ہنیہ کی موت 'دنیا کو ایک بہتر جگہ بناتی ہے۔ دنیا کو پاک کرنے کا یہ صحیح طریقہ ہے۔ اب کسی امن معاہدے کی گنجائش نہیں اور نا ہی کسی کے لیے کوئی رحم ہے۔'
اسرائیلی فوج نے بھی اس واقعے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 'ہنیہ کی ہلاکت کے بارے میں غیر ملکی میڈیا رپورٹس پر ردعمل نہیں دیں گے۔'
ایران کا ردعمل
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی موت کا بدلہ لینا 'تہران کا فرض' ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ' اسرائیل جس نے اب تک ہنیہ کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی، نے 'سخت سزا' کی بنیاد فراہم کی ہے۔
ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہنیہ کے 'بزدلانہ' قتل پر بھرپور جواب دیں گے اور ایران 'اپنی علاقائی سالمیت اور وقار کا دفاع کرے گا۔'
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
امریکہ کا ردعمل
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت میں امریکہ ملوث ہے اور نا ہی ہم اس منصوبے سے آگاہ تھے۔ جبکہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ اسرائیل پر حملہ ہوا تو امریکہ اسرائیل کا دفاع کرے گا۔
چین کا ردعمل
چین کی وزارت خارجہ نے اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کو خطے میں کشیدگی بڑھنے کے خطرے پر شدید تشویش ہے۔ ترجمان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں مکمل سیز فائر ہونا چاہیے۔
روس کا ردعمل
روسی وزارت خارجہ نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کو 'مکمل طور پر ناقابل قبول' قرار دیا ہے۔ نائب وزیر خارجہ میخائل بوگدانوف کا کہنا ہے کہ ' حماس کے رہنما کی ہلاکت سے خطے میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔'
ترکی کا ردعمل
ترکی کی وزارت خارجہ نے بھی تہران میں اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'اس حملے کا مقصد غزہ کی جنگ کو خطے میں پھیلانا ہے۔'
قطر کا ردعمل
قطر کی وزارت خارجہ کی جانب سے ایک بیان میں اسماعیل ہنیہ کی تہران میں ہلاکت کو 'گھناؤنا جرم اور بین الاقوامی اور انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی' قرار دیا گیا ہے۔ بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ 'یہ قتل اور شہریوں کو مسلسل نشانہ بنانے کا لاپرواہ اسرائیلی رویہ خطے میں افراتفری کا باعث بنے گا اور امن کے امکانات کو نقصان پہنچائے گا۔'
لبنان کا ردعمل
لبنانی وزیر اعظم نجیب میکاتی نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے خطے میں کشیدگی بڑھنے کا سنجیدہ خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔
اردن کا ردعمل
اردن نے بھی حملے کے بعد خطے میں کشیدگی اور غیر یقنی صورت حال بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
پاکستان کا ردعمل
پاکستان نے بھی اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کی ہے اور ان کے اہل خانہ اور فلسطینی عوام سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
مبصرین کے خدشات
مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت سے فلسطین اسرائیل جنگ پورے خطے میں پھیل سکتی ہے۔
معروف تجزیہ کار مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ حماس رہنما کی ایران میں ہلاکت اسرائیل اور اس کے حامیوں کی تکنیکی برتری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس حملے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس کی پہنچ ایران کے اندر تک ہے اور یہ ایرانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ حماس رہنما کو ایران کے اندر نشانہ بنانا واضح کرتا ہے کہ حملے کا ہدف صرف اسماعیل ہنیہ نہیں تھے بلکہ ایران بھی تھا۔ اس حملے کے بعد ایران میں انتہاپسند سوچ کو بڑھاوا ملے گا اور اعتدال پسند نئے منتخب صدر کا مؤقف کمزور ہو گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت سے حماس کمزور نہیں ہو گی کیونکہ وہ حماس کا سیاسی چہرہ تھے جبکہ حماس کی اصل طاقت یحییٰ سنوار ہیں جو ابھی زندہ ہیں۔