موسمیاتی تبدیلی یا گلوبل وارمنگ دنیا کے لئے ایک چیلنج بن گیا ہے جس سے نمٹنے کے لئے فی الحال کوئی خاص پلان نظر نہیں آ رہا کیونکہ بنی نوع انسان نے خود اس روئے زمین کو اس نہج پر لاکے کھڑا کر دیا ہے جو اب رہنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان بھی گلوبل وارمنگ کا شکار ہے۔ ہر سال سیلاب اور باقی قدرتی آفات کی وجہ سے پاکستان کو 4 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان نے خود کلائمیٹ چینج میں اتنا حصہ نہیں ڈالا جتنا باقیوں نے ڈالا ہے مگر اس کا شکار پاکستان ہو رہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کو یہاں تک لانے میں پڑوسی ممالک انڈیا اور چین کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ ہندوستان اور چین انڈسڑی کو چلانے کے لئے بڑے پیمانے پر کوئلے کا استعمال کر رہے ہیں جس کا اثر پاکستان پر بھی پڑ رہا ہے۔
اس کا اندازہ ہم اس بات سے بھی بخوبی لگا سکتے ہیں کہ جب گندم کی باقیات کو جلایا جاتا ہے تو لاہور جو کہ انڈین پنجاب کے ساتھ براہ راست بارڈر شیئر کرتا ہے سموگ کی وجہ سے شدید موسمی بحران کا شکار رہتا ہے۔ بے موسمی بارشوں اور برف باری کی وجہ سے گلیشئرز بھی تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں۔ اس کے حوالے سے بھی ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2050 تک عین ممکن ہے موجودہ گلشئیرز کا 80 فیصد پگھل کر ختم ہو جائے خاص کر ان ممالک میں جو موسمی تبدیلی کے اثرات کا شکار ہیں ان ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے بچنے کے لئے جنگلات اور ماحول دوست اقدامات بھی وقت کی ضرورت اور مجبوری ہے اس کے لئے بین الاقوامی سطح پر ایک معیار قائم کیا گیا ہے جس کے مطابق کسی بھی علاقے کے 25 فیصد حصے پر جنگلات کا ہونا ماحول اور موسمیاتی تبدیلی سے بچنے کے لئے اہم ہے۔ خیبر پختونخوا کے سیکرٹری جنگلات، ماحولیات و موسمی تبدیلی شاہد زمان نے اس حوالے سے بتایا کہ ہماری کوششوں سے خیبر پختونخوا کے ساڑھے 26 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں اس میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے جنگلات پاکستان کے مکمل ذخیرے کے حساب سے 45 فیصد ہیں جو کہ بہت بڑی بات ہے۔ ماحولیاتی اور موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے پہلے بلین ٹری اور اب ٹریلین ٹری سونامی کا منصوبہ شروع کر رہے ہیں جس میں وفاق بھی فنڈ دے رہا ہے۔ اس حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت نے ساڑھے 7 ارب روپے جاری کیے ہیں۔
سیکرٹری جنگلات، ماحولیات و موسمی تبدیلی کا کہنا تھا کہ جنگلات کی کٹائی پر بہت سختی کے ساتھ پابندی لگائی گئی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جو ویڈیوز شیئر ہو رہی ہیں ان تمام کی ایک ایک کرکے انکوائری کی گئی ہے مگر پختونخوا کا شاید کسی کو پتہ نہ ہو 92 فیصد جنگلات لوگوں کی ملکیت ہے اور حکومت کی ملکیت میں محض 8 فیصد جنگلات آتے ہیں، مگر وہاں بھی لوگوں کو بلاضرورت جنگلات کی کٹائی کی اجازت بالکل بھی نہیں۔ سیکرٹری شاہد زمان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور میں خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا انسانی آباد کردہ جنگل بنایا گیا ہے جس میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس سے شہر کے ماحول میں کافی بہتری آئیگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری کوشش ہے کہ مقامی پودوں کو زیادہ سے زیادہ کاشت کیا جائے جس میں پھلدار اور پھولدار دونوں شامل ہیں۔ ہاں البتہ جن جگہوں پر پانی کی کمی ہو یا سخت پہاڑی علاقہ ہو وہاں یوکلپٹس یعنی سفیدے کے پودوں کو کاشت کیا جائے گا کیونکہ وہ ہر موسم میں زندہ رہ سکتا ہے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
دوسری جانب اس حوالے سے پشاور زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر بخت جہان کہتے ہیں کہ موسمی اثرات اور ہماری لاپرواہی نے پاکستان میں واٹر ٹیبل یعنی پانی کی سطح کو بھی ایسی جگہ لا کے کھڑا کر دیا ہے جس میں تیزی کے ساتھ خطرناک حد تک کمی ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا 2030 تک پاکستان کی 50 فیصد سے زائد آبادی پینے کے صاف پانی کے مسئلے کا سامنا کر سکتی ہے کیونکہ 1972 میں فی کس پانی کی سطح 7500 کیوبک میٹر تھی جو اب 1117 کیوبک میٹر رہ گئی ہے۔ ماہرین نے اس حوالے سے جو معیار مقرر کیا ہے وہ ہزار کیوبک میٹر فی یونٹ ہے۔ ڈاکٹر جہان بخت کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی کمی کا شکار ہو سکتا ہے گو کہ زیادہ تر عرب ممالک اس لسٹ کا حصہ ہیں۔
وجوہات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اگر ہم کلائمیٹ چینج جیسی خطرناک آفات کے بھنور کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پانی کو بچانا ہو گا۔ اس کا حل یہ ہے کہ پانی کی قیمت کو بڑھایا جائے۔ پاکستان میں فی کیوبک پانی دو ڈالر سے کم میں مل رہا ہے، امریکہ اور سنگاپور میں اس کی قیمت 55 ڈالر فی کیوبک ہے۔ دوسرا ڈیموں کے ذریعے اور باقی طریقوں سے اس کو جمع کرنا ہو گا جس سے واٹر ٹیبل یعنی پانی کی سطح برقرار رہے۔ پوری دنیا میں اس کے لئے رین ہارویسٹنگ کا رواج قائم ہے، بارش کا پانی جمع کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر سال صرف خیبر پختونخوا سے 400 ارب روپے کا پانی ضائع ہو کر سمندروں کا حصہ بنتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے حوالے سے صوبائی حکومت اور بالخصوس محکمہ جنگلات و موسمیاتی تبدیلی کے اقدامات پر بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی لحاظ علی کا کہنا ہے کہ کلائمیٹ اور موسم میں فرق ہوتا ہے کیونکہ موسم وقتی اور کلائمیٹ کل وقتی چیز کا نام ہے۔ اس حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت نے کاوش کی ہے اور اس کا اثر ضرور پڑیگا مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان اور چین جس انداز سے ماحول کو آلودہ کر رہے ہیں اس کا نقصان ہمیں ضرور اٹھانا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پورا ملک اور خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں شامل ہے۔
لحاظ علی کا مزید کہنا تھا کہ اس کے لئے متعلقہ محکمے اور عام عوام کو ساتھ کام کرنا ہوگا مگر مسئلہ یہی ہے کہ محکمہ جنگلات، ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی کا عوام کے ساتھ رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ہوتا تو پشاور میں انسانی آباد کردہ جنگل کے بارے میں باقی صوبوں کے عوام کو نہ سہی صوبے کی عوام کو تو پتہ ہوتا۔ دوسرا یہ کہ اگر محکمہ صحیح معنوں میں کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو مقامی اور پھول دار پودوں کا انتخاب کرنا ہوگا جس سے موسمی تبدیلی کے آسیب کو بھی کنٹرول کیا جائے اور شہدبانی کی صنعت کو بھی فروغ ملے۔ صوبائی سطح پر خیبر پختونخوا حکومت جس لیول پر کام کر رہی ہے دوسرے صوبوں اور وفاق میں اس انداز سے کام نہیں ہو رہا۔ وفاقی حکومت کو موسمی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لئے عوامی سطح پر مہمات کا سلسلہ شروع کرنا ہوگا جس سے مستقبل قریب میں آفات کے ہمہ گیر سلسلے سے ناصرف خود کو محفوظ رکھا جا سکے بلکہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے دوسرے ممالک کے لئے بھی مشعل راہ بنا جا سکے۔