تفصیلات کے مطابق متحدہ اپوزیشن اور تحریک انصاف کے ناراض گروپس کی قیادت میں رات گئے تک اہم مشاورت جاری رہی، جس میں وزیر اعظم عمران خان کے مستعفی ہونے اور اسمبلیاں تحلیل کرکے قبل از وقت انتخابات کروانے کے آپشن پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رہنماؤں کی اکثریت تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ کروا کر منطقی انجام تک پہنچانے کی حامی ہے، اور اکثریت نے وزیر اعظم اور ان کے رفقاءپر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، تاہم اگر وزیر اعظم ووٹنگ سے قبل استعفی دے کر اسمبلیاں تحلیل کرنے پر تیار ہیں تو اس آپشن کو مضبوط ضمانت کے ساتھ منظور کیا جا سکتا ہے۔
اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت بجٹ پیش کرنے تک کی مہلت مانگ رہی ہے لیکن اپوزیشن اور ناراض گروپ یہ مہلت دینے پر تیار نہیں، اس حوالے سے ترین اور علیم گروپ سمیت دیگر ناراض اراکین نے متحدہ اپوزیشن کی سینئر قیادت کو اپنی رائے سے آگاہ کردیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لندن موجود جہانگیر ترین اور مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحق ڈار کے درمیان گزشتہ شب ہونے والی بات چیت میں بڑا بریک تھرو ہو چکا ہے، اور جلد ہی بڑے اعلانات متوقع ہیں۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے 5 ناراض گروپس سمیت مجموعی ارکان کی تعداد 65 سے زائد تک پہنچنے کا قوی امکان ہے، اور اگر آئین کے تحت پی ٹی آئی کے 62 سے ارکان پنجاب اسمبلی میں فارورڈ بلاک بناتے تو ان پر آرٹیکل 63 اے کا اطلاق نہیں ہوگا۔
تحریک انصاف کے ناراض دھڑوں کا مشترکہ پاور گروپ بنانے پر کام شروع کردیا گیا ہے، اور ان ناراض دھڑوں کو متحد کرنے کے لئے تین رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے، جس میں ترین گروپ کی نمائندگی عون چوہدری، علیم گروپ کی نمائندگی خالد محمود جب کہ غضنفر چھینہ شامل ہیں، یہ کمیٹی تینوں دھڑوں کو متحد کرنے اور مشترکہ لائحہ عمل پر غور کرے گی۔