یو ٹیوب چینل پر اپنے حالیہ وی-لاگ میں صحافی اسد علی طور نے سپریم کورٹ سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافیوں حسن ایوب اور حسنات ملک سے سپریم کورٹ کے معاملات سے متعلق گفتگو کی ہے۔ حسن ایوب نے خبر دی کہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال ہائی کورٹس کے دو جونیئر ججز کو سپریم کورٹ میں لانا چاہتے تھے اور انہوں نے دونوں کے نام جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں پیش کیے تھے مگر یہ دونوں نام جوڈیشل کمیشن نے مسترد کر دیے تھے جسے بعد میں چیف جسٹس نے مسترد کے بجائے 'ڈیفر' کا نام دیا تھا۔
اس کے بعد چیف جسٹس صاحب کی پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ ہوئی اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے انہی دو ججز کے حق میں ووٹ دے دیا۔ یہ ججز جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید تھے جنہیں چیف جسٹس نے حکومت کے ساتھ ملاقاتیں کر کے اور کچھ کمٹ منٹس دے کر سپریم کورٹ میں تعینات کروایا مگر مذکورہ ججز کی تعیناتی کے بعد چیف جسٹس اپنی کمٹ منٹ پہ قائم نہیں رہے اور اس سے مکر گئے۔ اس کے بعد حکومت نے ان کے خلاف جانے کا فیصلہ کیا اور اسی کے نتیجے میں موجودہ تمام صورت حال پیدا ہوئی ہے۔
حسنات ملک نے بتایا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس کی پہلی سماعت کے دوران سوال اٹھایا تھا کہ یہ بھی دیکھنا چاہئیے کہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے والا عمل درست تھا یا نہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ بالکل یہ اہم سوال ہے اور اسے کارروائی کا حصہ بنانا چاہئیے مگر بعد میں ایک جج نے بڑا غصہ کیا کہ یہ سوال آپ کیوں شامل کر رہے ہیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے آرڈر تبدیل کر کے یہ سوال آرڈر میں سے نکال دیا۔
چیف جسٹس صاحب نے اپنے دھڑے کے ایک جج کی وجہ سے جسٹس اطہر من اللہ کو ناراض کر دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پھر آرڈر میں یہ سب لکھ دیا تو چیف جسٹس کو اور غصہ آ گیا۔ اسد طور نے بتایا کہ جن کے کہنے پہ چیف جسٹس نے آرڈر تبدیل کیا تھا وہ جسٹس منیب اختر تھے جو چیف جسٹس کی جانب سے بنائے جانے والے کم و بیش ہر بنچ میں شامل ہوتے ہیں۔
حسنات ملک نے سوال اٹھایا کہ پی ڈی ایم حکومت کو آئے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے اور پانچ ماہ قبل کابینہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس پر کیوریٹیو ریویو لیا تھا تو پھر حکومت نے یہ ریویو واپس لینے میں پانچ ماہ کیوں لگا دیے؟ حکومت کو اب تک کس نے روک رکھا تھا؟ کیا وہ جنرل باجوہ تھے جنہوں نے حکومت کو منع کر رکھا تھا؟ حالانکہ اس کیوریٹیو ریویو کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، وہ پڑا بھی رہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
حسنات کے مطابق ن لیگ کا وطیرہ رہا ہے کہ ججز آزاد بھی رہنا چاہیں تو یہ انہیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماضی میں ن لیگ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف 'کورٹ پیکنگ' میں شامل رہی ہے اور اب یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت ریویو واپس لے کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان کے کل والے فیصلے پر انہیں انعام دے رہی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عدالتی اصلاحات کی منظوری تک چیف جسٹس صاحب آرٹیکل 184 (3) کے اختیارات استعمال کرنے سے رک جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ اصلاحات کا معاملہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ نے 2019 میں اٹھایا تھا مگر ان کے بعد جسٹس گلزار نے اسے نظر انداز کیے رکھا اور موجودہ چیف جسٹس بھی فل کورٹ بنچ کے سامنے یہ معاملہ رکھنے سے کتراتے رہے جس کے باعث حکومت کو یہ اصلاحات کرنی پڑیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال بہت تحمل مزاج آدمی ہیں۔ وہ واحد چیف جسٹس ہیں جن کے دور میں کسی کے خلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی گئی۔ جب چیف جسٹس بنے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ان کا کوئی تنازعہ نہیں تھا اور دونوں کے مابین تحائف کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔ مگر بعد میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے ریویو کے فیصلے میں 100 صفحے لکھ دیے اور اس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق ایسی ایسی باتیں بھی لکھ دیں جو سماعت کے دوران ہوئی ہی نہیں تھیں۔ اس فیصلے میں چیف جسٹس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ غلط بیانی کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو تمام اہم مقدمات کے بنچوں سے دور رکھا ہے۔ یہاں تک کہ قاضی فائز عیسیٰ کو خود خط بھی لکھنا پڑا کہ آئین کی تشریح سے متعلق اتنے اہم مقدمات میں ان سے بھی مشاورت کی جانی چاہئیے۔