سیاسی معاملات میں عدالتی مداخلتوں کا راستہ بند ہو جانا چاہیے

جسٹس منصور علی شاہ کے واضح مشاہدات کے بعد ججوں کے پاس کوئی گنجائش نہیں بچتی کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کریں۔ عین اسی طرح جیسے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی جواز نہیں بچا کہ وہ سیاسی نظام کو چلانے کی کوشش کریں۔

سیاسی معاملات میں عدالتی مداخلتوں کا راستہ بند ہو جانا چاہیے

ایک ایسے وقت میں جب سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی ہونے سے متعلق درخواست کی سماعت ہو رہی ہے، پاکستانی ریاست کے اندر جاری بحران کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ عین اس دن جب سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت شروع کی، جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردہ تفصیلی فیصلے کو عوام الناس کے لئے جاری کر دیا گیا۔ جس انداز میں موجودہ سپریم کورٹ کام کر رہی ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے انداز پر ایک سخت فرد جرم محسوس ہوتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے 27 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے نے اس سے قبل لئے گئے ازخود نوٹس کیس کو خارج کر دیا جس میں صوبائی انتخابات کی تاریخ کا معاملہ اٹھایا گیا تھا اور یہ بھی کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار کس کو حاصل ہے۔ تاہم اس کے باوجود انتخابات سے متعلق لیے گئے ازخود نوٹس کیس کے 2-3 سے سنائے جانے والے فیصلے کی خلاف ورزی پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف دائر درخواست کی سماعت جاری رہی۔

دو 'اختلافی' ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے لکھا کہ جس طرح ملک میں سیاسی گرما گرمی کا ماحول فروغ پا چکا ہے، اس دوران سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے صوابدیدی اور غیر معمولی دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے سے ملکی فضا میں موجود یہ سیاسی کشیدگی اور بھی شدت اختیار کر جائے گی۔

مذکورہ ججز نے قرار دیا کہ 'سیاسی نظام کا بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کے اختلافات کو ختم کرے، لیکن سیاسی نظام کے اس اہم کردار کو جو کہ جمہوریت کی بنیادی شرط ہے، سیاسی نظام سے باہر لے جا کر عدلیہ کے حوالے کر دینے سے جمہوری انتخاب کا بنیادی اصول خطرے میں پڑ جاتا ہے'۔ فیصلے میں یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ 'ہر قوم کی زندگی میں ہمیشہ ایسے اہم واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جہاں سیاسی نظام مایوسی سے دوچار کر سکتا ہے مگر اس سے قطعاً یہ نتیجہ نہیں اخذ کیا جا سکتا کہ ایسی مشکل صورت حال میں عدلیہ کا سہارا لے کر بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں'۔

جسٹس منصور علی شاہ نہایت وضاحت کے ساتھ رقمطراز ہیں؛ 'کسی نقطۂ نظر کے ساتھ اس طرح کی وابستگی جو لچک سے مکمل طور پر عاری ہو، سیاسی حوالے سے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ مقدمے بازی ایک مشاورتی یا شراکتی عمل نہیں ہے اور اسی وجہ سے یہ عمل شاذ و نادر ہی ایسے معاملات پر موجود اختلافات میں ثالثی کا کردار ادا کر سکتا ہے جہاں معقول لوگوں کے اختلاف کی گنجائش موجود ہو۔ محض سیاسی عمل ہی اس طرح کے مسائل کو حل کرنے اور اختلافات مٹانے کی اہلیت رکھتا ہے'۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ازخود نوٹس کیس کی کارروائی کو روک دینے کا فیصلہ 3-4 کی اکثریت سے کیا گیا تھا جس پر عمل کرنا 'تمام متعلقہ افراد پر لازم ہے'۔ سات رکنی بنچ کی دوبارہ سے تشکیل محض ایک 'انتظامی معاملہ' تھا تا کہ بنچ کے باقی ممبران کیس کی مزید سماعت جاری رکھ سکیں اور 'یہ بنچ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے دیے گئے عدالتی فیصلوں کو کالعدم نہیں قرار دے سکتا تھا'۔

اب جبکہ ہمارے پاس ایک ہی معاملے سے متعلق سنائے گئے دو الگ الگ فیصلے موجود ہیں تو کون سا درست قرار پائے گا؟ جسٹس منصور علی شاہ کا دوراندیش تجزیہ یا جسٹس عمر عطاء بندیال کا لکھا گیا فیصلہ جس میں انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 30 اپریل تک انتخابات کرانے کی ہدایت جاری کی تھی؟ یہ ایک قانونی معاملہ دکھائی دیتا ہے جسے سپریم کورٹ میں جاری حالیہ کارروائی کے دوران زیر بحث لایا جانا چاہئیے۔ اس کے نتیجے میں ایک پنڈورا باکس کھل گیا ہے جو ایک غیر منتخب ادارے کی جانب سے سیاسی تنازعات کو سیاسی گفت و شنید، سمجھوتے اور سودے بازی کے ضروری لوازمات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حل کرنے کی کوشش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انتشار کی عکاسی کرتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کے واضح مشاہدات کے بعد ججوں کے پاس کوئی گنجائش نہیں بچتی کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کریں۔ عین اسی طرح جیسے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی جواز نہیں بچا کہ وہ سیاسی نظام کو چلانے کی کوشش کریں۔

پاکستان اس وقت جن حالات سے دوچار ہے وہ قومی سیاسی انتخاب کے فیصلوں میں ہونے والی اس مداخلت کا براہ راست نتیجہ ہیں جو سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ، ان کے پسندیدہ ساتھی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید اور مٹھی بھر تابع فرمان ججوں نے ڈھٹائی کے ساتھ جاری رکھی۔ اسی گٹھ جوڑ نے ناقص سیاسی انجینئرنگ کو یقینی بنایا، ایک منتخب وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا اور اقتدار کو اپنے پسندیدہ سیاست دان کے حوالے کرنے کے لئے 2018 کے انتخابات میں گڑبڑ پیدا کی۔

فیصلہ سازوں کا 2018 والا یہ تجربہ الٹا پڑ گیا ہے اور بہت بری طرح سے۔ مشہور کرکٹر سے سیاست دان بننے والے عمران خان جنہیں ان سب نے مل کر صادق اور امین قرار دیا تھا، اس نے اب عوامی بحث و مباحثے میں ایسے کردار کی حیثیت حاصل کر لی ہے جو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت پر قائم اجارہ داری کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن کے ابھرا ہے۔ عوامی رائے عامہ کو ان لوگوں کی مدد سے تشکیل دیا گیا جنہیں پچھلے چند سالوں میں میڈیا پر کنٹرول حاصل کر کے اور تعلیمی نصاب کی مدد سے ایک خاص منصوبے کے تحت غیر سیاسی کیا گیا اور جن کی ذہن سازی کی گئی تاکہ ملک میں ایک مذہبی و فوجی کمپلیکس کو کھڑا کیا جا سکے۔ یہ انجینئرڈ نظام سات سال گزارنے کے بعد اب شکست و ریخت کا شکار ہو چکا ہے اور اس سے پہلے کہ سارے نظام کے پرخچے اڑ جائیں، ملک کی سیاسی اشرافیہ کو چاہئیے کہ فوری طور پر اپنی توجہ اس کی جانب مرکوز کرے۔

عمران خان نے کامیابی کے ساتھ جنرل (ر) قمر باجوہ کو عوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن نے یہی سلوک سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے ساتھ کیا ہے۔ اب چونکہ دونوں پارٹیاں تنقید کے لئے اپنی مرضی کے اہداف کا انتخاب کر رہی ہیں تو اس سے مقصد حاصل ہوتا نظر نہیں آتا۔ اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت ایک وجودی المیے کا سامنا ہے؛ اگر معاملات سلجھانے کے لئے مداخلت کرتی ہے تو مزید بے نقاب ہوتی ہے اور اگر دخل اندازی نہیں کرتی تو معیشت اور سیاست تباہی کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ اس دلدل میں پھنسے ہوئے سپریم کورٹ کے جج صاحبان سیاسی معاملات میں بدستور ثالثی کا کردار ادا کرنے پر تلے بیٹھے ہیں جبکہ موجودہ تعطل پیدا ہی اسی ثالثی کے نتیجے میں ہوا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ "اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہم 'ون مین شو' والی اس طاقت پر نظرثانی کریں جو چیف جسٹس آف پاکستان کو حاصل ہے'۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اب فرد واحد یعنی چیف جسٹس آف پاکستان کے انفرادی فیصلے پر انحصار نہیں کر سکتی۔ عدالت عظمیٰ کو تمام سپریم کورٹ ججوں کی جانب سے منظور شدہ اصولوں پر مبنی نظام کے ذریعے سے ریگولیٹ کیا جانا چاہئیے اور فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس پر عمل کرنا اب بہت ضروری ہو چکا ہے تا کہ 'ہمارا ادارہ مضبوط ہو سکے اور عدلیہ پر عوام کا اعتبار اور اعتماد قائم رہے'۔

فیصلے میں خبردار کیا گیا ہے کہ 'جب بہت سارے اختیارات کسی ایک ہی شخص کے پاس جمع ہو جائیں تو اس بات کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ادارہ آمرانہ مزاج کا اور غیر محفوظ ہو جائے گا جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک ہی آدمی کی پالیسیوں پر عمل درآمد ہوتا رہے گا اور اس کے نتیجے میں عوام کے حقوق اور مفادات نظرانداز ہونے کا رجحان پیدا ہو سکتا ہے'۔

27 صفحات پر مشتمل فیصلے کا پیراگراف نمبر 39 چیف جسٹس کو ایک سخت جواب دیتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ '1980 میں بنائے گئے سپریم کورٹ قواعد و ضوابط چیف جسٹس کو بنچوں کی تشکیل اور انہیں مقدمات سونپنے کے معاملے میں وسیع صوابدیدی اختیارات دیتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس عدالت نے بار بار اس بات پر غور کیا ہے کہ عوامی عہدیداروں کو کس طرح اپنے دائرہ اختیار میں رہنا چاہئیے مگر بدقسمتی سے یہی معیار وہ اپنے لیے قائم کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے جس کے نتیجے میں چیف جسٹس کو آرٹیکل 184(3) کے تحت ازخود نوٹس لینے، بنچ تشکیل دینے اور انہیں مقدمات سونپنے کے حوالے سے وسیع تر اختیارات حاصل ہیں۔

آج یہ مقدمہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اپنے اوپر چل رہا ہے۔ اس کے چیف جسٹس صاحب ہر جانب سے حملوں کی زد میں ہیں، سینیئر ججوں پر جانب داری اور بدعنوانی کے الزامات لگ رہے ہیں اور عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی آوازیں بنچوں کی من مانی تشکیل پر سوال اٹھا رہی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کو اس وقت عام عوام کے جذبات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی قانونی حیثیت کے تحفظ کا بھی مشکل چیلنج درپیش ہے۔ فیصلہ جو بھی آتا ہے متنازعہ ثابت ہوگا اور لازمی طور پر اسے تعصب کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کا بروقت مشورہ بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ جب تک سیاسی اداروں جیسے کہ پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو موجودہ مسائل کے حل تلاش کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، ججوں کی قیادت میں ہونے والی ثالثی کی تمام تر کوششیں الٹا نقصان دہ ثابت ہوں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سپریم کورٹ ایک قدم پیچھے ہٹے اور ماضی کے 'سرگرم' چیف جسٹس صاحبان کے طرز عمل سے سبق سیکھے جن کے اکثر فیصلوں نے جمہوریت اور آئین کے احترام کو نقصان پہنچایا ہے۔

افسوس ناک بات ہے کہ ہمارے ہاں ماضی سے کچھ سیکھنے کی روایت موجود ہی نہیں ہے۔ عمران خان کا حالیہ بیان کہ ان کے نام پر اسٹیبلشمنٹ نے 'کاٹا لگا دیا' ہے، اچھی بات نہیں ہے۔ طویل مدت تک قائم رہنے والی نگران حکومت کے قیام اور انتخابات کے غیر معینہ مدت تک ملتوی ہونے کی افواہیں زور پکڑ رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے لیے یہ نیند سے جاگ جانے کا وقت ہے کیونکہ انہیں کسی صورت بھی 1977 کے واقعات کو دہرانا نہیں چاہیے کہ جب انتخابات سے پہلے احتساب کے مطالبے کا نتیجہ 11 سالہ طویل ڈراؤنے خواب کی شکل میں سامنے آیا تھا۔




رضا رومی کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔