شہریوں کا کہنا ہے کہ پھلوں کا بائیکاٹ ضلعی انتظامیہ کی نا اہلی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ پھل اب غریب و متوسط گھرانوں کے لیے سونے جیسی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
اس مہم میں بہت سے لوگوں نے حصہ لیا ہے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ اگر اسی طرح شہری پھل بائیکاٹ مہم کا حصہ بنیں تو مہنگائی کو کم کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے اس سال مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پہ پہنچ چکی ہے۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی جی ڈی سی فاؤنڈیشن کی جانب سے پھل بائیکاٹ مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔
انجمن تاجران کا مؤقف:
اس حوالے سے صحافی یوسف بلوچ نے انجمن تاجران کیچ کے صدر اسحاق روشن دَشْتی سے رابطہ کیا۔ اسحاق روشن نے بتایا کہ مہنگائی صرف تُربَت میں نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ہے۔ روپے کی قدر میں اضافے کی وجہ سے چیزیں مہنگی ہوئی ہیں۔
اسحاق روشن نے کہا کہ پھل شہر کے باہر سے آتے ہیں۔ ٹرالرز کے ایندھن کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے کرایے بھی بڑھ گئے ہیں۔ پھر بھی شہر میں جو پھل آتے ہیں وہ محض دس، بیس روپے کے اضافے کے ساتھ بیچے جاتے ہیں۔
انجمن تاجران کے ضلعی صدر نے ہمیں بتایا کہ ممکن ہے مہنگائی کی ایک وجہ ماہِ رمضان میں چیزوں کی طلب ہے جو رسد سے زیادہ ہے۔ طلب بڑھ جانے سے چیزیں وہاں سے مہنگی آتی ہیں۔
کیا دکان دار گراں فروشی نہیں کرتے؟
اسحاق روشن مزید بتاتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کئی دکاندار گراں فروشی بھی کرتے ہوں لیکن ہم روزانہ کی بنیاد پر ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر چیکنگ بھی کرتے ہیں اور ریٹ لسٹ پر عمل درآمد کی بھی ہدایت کی جاتی ہے۔
اسحاق روشن کے مطابق دکان دار پابند ہیں کہ ضلعی انتظامیہ کی جاری کردہ ریٹ لسٹ پہ عمل کریں۔
اگر کوئی دکان دار گراں فروشی کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اس کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں کی جائے گی اور انجمن تاجران ضلعی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کر کے گراں فروشوں پر جرمانہ کرنے کی اجازت بھی دیتی ہے۔
پھل ذخیرہ بھی نہیں ہو سکتے:
اسحاق روشن نے ہمیں بتایا کہ پھل ایک ایسی چیز ہے جو ذخیرہ اندوزوں کی گرفت میں نہیں آ سکتی۔ جیسے ہی پھل منڈی میں پہنچ جاتا ہے تو خریدار اسے حاصل کر سکتا ہے۔ پھل اگر دو دن بھی ذخیرہ کیا جائے تو خراب ہو جاتے ہیں جس سے پھل فروش خود خسارے میں پڑ جاتے ہیں۔
ضلعی انتظامیہ کا مؤقف:
کئی شہری یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جاری نرخ نامہ ہی یک طرفہ ہے۔ ہم نے اس مدعے کو سمجھنے کے لیے اسسٹنٹ کمشنر تُربَت کے پرسنل اسسٹنٹ الطاف حبیب سے رابطہ کیا۔
الطاف حبیب نے بتایا کہ ریٹ لسٹ ضلعی انتظامیہ کی خواہشات کی بنا پر نہیں بنتی۔ لسٹ بنانے سے پہلے دیگر شہروں کی ریٹ لسٹ پر بھی غور کیا جاتا ہے اور نئی لسٹ بنانے کے لیے انجمن تاجران و متعلقہ نمائندوں کو بھی اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہم ایک مؤثر لسٹ جاری کرتے ہیں جس پر عمل کرنا شہر میں ہر دکان دار پر لازم ہوتا ہے۔
الطاف حبیب نے بتایا کہ اگر چیزیں باہر سے مہنگی آتی ہیں تو ہم اسے سستے داموں میں فروخت کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہم یہی کوشش کرتے ہیں کہ چیزیں ہر فرد کے لیے وافر مقدار میں اور مناسب قیمت میں دستْیاب ہوں اور دکاندار کو بھی سرکاری نرخ نامے پر تکلیف نہ ہو۔
تُربَت کا شمار پاکستان کے مہنگے شہروں میں ہوتا ہے۔ 2018 میں سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری مہنگے شہروں کی فہرست میں تُربَت پاکستان بھر میں پہلے نمبر پر رہا تھا تاہم رواں سال کی فہرست میں تربت شہر کا مہنگائی فہرست میں نام بہت نیچے ہے۔ اس سال کی فہرست میں ضلع خضدار اور کوئٹہ کے نام موجود ہیں۔
تُربَت ایران سے متصل ضلع کیچ کا ہیڈ کوارٹر ہے جس کے مغرب میں ایران ہے۔ ضلع کیچ میں کاروبار کا ایک ذریعہ پاک ایران بارڈر ہے جہاں سے ایرانی خورونوش کی اشیا اس شہر میں آتی ہیں اور شہری ایران سے پٹرول اور ڈیزل کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔