نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں جو چل رہا ہے یہ سکرپٹ کا آخری حصہ آن پہنچا ہے اور اسی میں فیصلہ ہو جائے گا کہ پاکستان میں عوام کی حکومت ہو گی یا پھر اسٹیبلشمنٹ، عدالتوں اور دیگر اداروں میں بیٹھے طاقتور لوگ بدستور اقتدار پر براجمان رہیں گے۔ جب یہ صورت حال پیدا ہو جائے کہ رجسٹرار ججوں کے فیصلوں کو منسوخ کرنے لگ جائیں تو سمجھ جانا چاہئیے کہ آخری مرحلہ آن پہنچا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ چیف جسٹس صاحب اور پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے ایک سیاسی رہنما کے جملے اور تراکیب تک مبینہ طور پر آپس میں ملتی ہیں۔ مثلاً سزا یافتہ لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، میرے جج وغیرہ۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا کچھ اور ہے؟ پچھلے سال نومبر کی ایک تاریخ پر ملک میں کیا کیا لڑائی نہیں ہوئی؟ اور اس سال ستمبر آ رہا ہے تو اس سے پہلے پہلے کسی دوست کو خوش کرنا ہے، کچھ فیصلے کرنے ہیں۔
تین جج منگل کو فیصلہ سنا دیں گے کہ 30 اپریل کو الیکشن کرواؤ اور الیکشن کمیشن جواب دے گا کہ ہم نہیں کروا سکتے۔ کیا آئین میں صرف یہی لکھا ہوا ہے کہ 90 روز میں الیکشن ضروری ہیں؟ کیا بس اسی ایک بات پر عمل درآمد کروانا ہی آئین کا احترام ہے؟ ان ججوں کو تب آئین کا احساس کیوں نہیں ہوا جب انہوں نے ایک آمر کو تین سال کی ایکسٹینشن دی تھی؟ انتخابات 90 روز میں ہوتے ہیں یا نہیں، انصاف کے ترازو پہ بہت مشکل وقت آ گیا ہے۔
اگر ملکی معاملات نہیں قابو میں آ رہے تو پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں کو ختم کر دیں اور حکومت ٹیکنوکریٹس چلا لیں جن میں سول بیوروکریسی اور ملٹری سے لوگ شامل ہوں، ججز ہوں، آئی جیز ہوں، چیف سیکرٹریز ہوں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں صرف تین لوگ پورے ملک کے بارے میں فیصلہ کریں گے کہ انتخابات ہونے چاہئیں یا نہیں۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ چیف جسٹس کے پاس آج اپنا امیج بہتر کرنے کا ایک اور موقع تھا مگر انہوں نے گنوا دیا۔ چیف جسٹس صاحب یہ تاثر دے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا مطلب ہوتا ہے؛ چیف جسٹس اور ان کے ہم خیال ججز۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔