طاقت کے ایوانوں کے کرتا دھرتا بھی گواہ ہیں، انتخابات مشکل میں ہیں
راقم تحریر کو چند روز قبل طاقت کے ایوانوں کے کرتا دھرتاؤں سے ایک افطار پارٹی میں بھی یہی سننے کو ملا کہ انتخابات کسی بھی صورت مقررہ وقت پر منعقد نہیں ہونے دیے جائیں گے۔ گویا جمہوری عمل میں رخنہ ڈالنے کی ریت کو برقرار رکھتے ہوئے اس وقت بھرپور کوششیں جاری ہیں کہ کوئی بھی تکنیکی یا قانونی جواز بنا کر عام انتخابات کو منسوخ کیا جا سکے یا ان کو التوا کا شکار بنایا جا سکے۔ بلوچستان کی "عسکری اسمبلی"، امپائر کی بیساکھیوں پر چلنے والی تحریک انصاف اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کے چرنوں میں حال ہی میں ڈھیر ہونے والی پیپلز پارٹی کو انتخابات کے بروقت منعقد ہونے سے ویسے بھی کوئی خاص دلچسی نہیں کیونکہ بروقت عام انتخابات کم و بیش 2013 کے عام انتخابات جیسے نتائج ہی دے پائیں گے۔ پس پشت قوتوں کی تمام تر سیاسی انجینئرنگ اور عدالتی ہتھوڑے کے استعمال کے باوجود سوچے گئے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔
اس وقت جس انداز سے سیاسی انجینئرنگ کا عمل جاری ہے اس کو دیکھتے ہوئے بہت سے مبصرین اور ناقدین عمران خان کو وطن عزیز کا اگلا وزیر اعظم سمجھ رہے ہیں۔ جبکہ اصل گیم پلان کچھ اور ہے۔ تمام تر سیاسی انجینئرنگ اور سیاسی ٹارگٹ کلنگ کے باوجود اس وقت تک کرائے گئے ملکی اور بین الاقوامی سرویز اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کو کامیاب ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔ دی اکنامسٹ سے لیکر گیلپ پاکستان کے سرویز اور حال ہی میں متنازعہ کتاب سپائی کرانیکلز میں سابق را کے سربراہ اے ایس دلت کا بیان کہ را کی انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق بھی پنجاب سے مسلم لیگ نون بھاری اکثریت سے جیتنے کی پوزیشن میں ہے، ان تمام اعداد و شمار نے ملکی دفاعی اسٹیبلشمنٹ کو شش و پنج میں مبتلا کر رکھا ہے۔
تحریک انصاف نے بالکل ہی مایوس نہ کر دیا ہوتا تو شاید۔۔۔
مقتدر حلقوں کو اس بات کا علم ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ اگلے عام انتخابات میں تحریک انصاف چالیس سے پینتالیس نشستیں ہی نکال پائے گی۔ پینتیس چالیس نشستوں کے دم پر صادق سنجرانی کی مانند عمران خان کو وزیراعظم کے عہدے پر زور زبردستی بٹھا بھی دیا جائے تو بھی وہ کچھ خاص کر دکھانے کی پوزیشن میں نہیں آ سکیں گے۔ مقتدر قوتیں یہ حقیقت بارہا عمران خان کو سمجھا چکی ہیں لیکن عمران خان بضد ہیں کہ اگر مسلم لیگ نواز کے ہاتھ پیر باندھ کر انہیں انتخابات لڑنے کا موقع دیا جائے تو وہ انتخابات میں یقینی کامیابی حاصل کر لیں گے۔ عمران خان کو ایسا ہی یقین 2013 کے عام انتخابات میں بھی تھا لیکن وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہے تھے۔ اب جبکہ خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت کی گورننس اور پس پشت قوتوں کے ساتھ مل کر ان کی جمہوری اقدار کو پامال کرتے ہوئے حکمرانی کا گیم پلان سب کے سامنے عیاں ہو چکا ہے، اس کے بعد انتخابات کا میدان مارنا ان کیلئے قریب قریب ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
انتخابات سے ویسے بھی مقتدر قوتوں کو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ پس پشت قوتیں اس وطن میں صدارتی نظام نافذ کرنا چاہتی ہیں تاکہ معاملاتِ ریاست ایک ہاتھ میں ہی مرکوز رہیں اور باآسانی اپنے پسند کے گھوڑے کو انتخابی ریس جتوا کر صدر بنایا جا سکے۔ صدارتی نظام نافذ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ وطن عزیز میں ایک ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔ ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ قائم کرنے کا ہدف نگران حکومت کے قیام کے دوران سیاسی جماعتوں کے ڈی لیمیٹیشن پر متفق نہ ہو پانے، عدالتوں کے ذریعے نئی حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دینے یا پھر نگران حکومت کی معیاد بڑھا کر باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی یہ کھیل سمجھتی ہے اسی لئے زرداری صاحب نے جھٹ سے جمہوری لبادہ اتار کر پس پشت قوتوں کی کشتی میں چھلانگ لگانے کو ترجیح دی ہے۔ زرداری صاحب کو گمان ہے کہ ان کے اس قدم سے پس پشت قوتیں خوش ہو کر ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ یا پھر آئندہ عام انتخابات میں انہیں کیک کا چھوٹا سا ٹکڑا ضرور دے دیں گی۔
اور ہو بھی گئے تو وزارت عظمیٰ اب بھی عمران خان صاحب کی منتظر ہی رہے گی
باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عام انتخابات منعقد نہ کروانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی اور اگر بادل نخواستہ منعقد کروانے پڑ ہی گئے تو شاہ محمود قریشی کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کروانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے گا۔ گویا کسی بھی صورت میں محترم عمران خان یا آصف زرداری کیلئے وزارت عظمیٰ کی شیروانی پہننے کا خواب سچ ثابت ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
اور یہ کچھ ایسا مشکل بھی نہیں، میڈیا تو بک ہی چکا ہے
خیر بات کچھ یوں ہے کہ اگر ملک کے بڑے بڑے میڈیا ہاوسز پر سینسر شپ لگا کر اور سیاسی حریفوں کے ہاتھ پیر باندھ کر بھی تحریک انصاف کی نشستوں کی متوقع تعداد صرف 40 کے لگ بھگ بنتی ہے اور پیپلز پارٹی پچاس کے قریب نشستوں پر کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے تو پھر ایسے انتخابات منعقد کروانے میں مقتدر قوتوں کو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ یوں بھی احتساب اور چند دنوں میں وطن عزیز میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے نعرے اس قدر پرفریب ہیں کہ وطن عزیز میں بسنے والی اکثریت اس لالی پاپ کو خریدنے کیلئے تیار رہتی ہے۔ اس لئے احتساب کا دائرہ کار وسیع کرنے یا عوام کی فلاح و بہبود کے نعرے بلند کر کے ایک نئے نگران سیٹ اپ کا قیام اور اسے طول دینا ہرگز بھی مشکل کام نہیں ہے۔ مقتدر قوتوں کو گمان ہے کہ اگر تماشہ نئے سرے سے بپا کیا جائے اور نئی کٹھ پتلیاں لا کر "ٹیکنوکریٹ" یا "صدارتی نظام" کا شوشہ چھوڑا جائے تو شاید تماش بین اس نئے تماشے کی نئی کٹھ پتلیوں کو پسند کرنے لگ جائیں گے۔
ہم ڈھاکہ کے سب سبق بھلائے بیٹھے ہیں
جمہوریت کی ناؤ اس وقت بھی بیچ منجھدار میں ڈولتی دکھائی دیتی ہے اور پس پشت قوتیں اب سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ان ڈھیٹ ووٹروں کو بھی سبق سکھانے کے موڈ میں دکھائی دیتی ہیں جو اب حب الوطنی اور ملک خطرے میں ہے کہ چورن کو خریدنے سے انکار کرتے ہوئے جمہوریت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنا چاہتے ہیں اور تمام تر پراپیگنڈا کو رد کرتے ہوئے صرف ووٹ کی طاقت کو ہی تبدیلی اور ترقی کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں۔ آئندہ ہونے والے انتخابات اب شاید نواز شریف پس پشت قوتوں کے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں۔
اگر انہیں ملتوی کیا جاتا ہے تو پنجاب اور بلوچستان کی پشتون بیلٹ سے ایک بڑی احتجاجی تحریک چلنے کا امکان ہے جس کے نتائج پس پشت قوتوں کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان کیلئے بھی خوش کن نہیں ہوں گے جبکہ انتخابات بروقت کروائے جائیں تو مسلم لیگ نواز پھر سے میدان مارنے کی پوزیشن میں ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو نتیجے میں پس پشت قوتوں کی سیاسی اور دیگر ریاستی معاملات پر اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کا انعقاد سازشوں میں بری طرح سے گھرا ہوا ہے اور سازشیں کرنے والے ایک مرتبہ پھر وطن عزیز کو 1971 جیسی پوزیشن کی جانب دھکیلتے جا رہے ہیں۔اس وقت طاقت کی بساط کے تمام فریقین کو معاملہ فہمی سے کام لینے کی اشد ضرورت ہے کہ سنہ ستر کے انتخابات اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے سن اکہتر کے سانحے کے بعد کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا تھا۔