وزیر اعظم کے خطاب کے بعد صحافی فخر درانی نے سلسلہ وار ٹویٹس میں اس بات کا پرچار کیا کہ وزیراعظم بذات خود انتہائی کم ٹیکس ادا کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ تین سو کنال کے مہنگے گھر،لاہور کے زمان پارک کے گھر،بنی گالہ میں مزید 6 کنال زمین، گرینڈ حیات میں لگژری فلیٹ اور دیگر شہروں میں میں قیمتی زرعی اراضی رکھنےاور سینکڑوں ایکڑ زراعتی رقبہ رکھنے اور بنک اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے موجود ہونے کے باوجود خان صاحب نے 2015 میں صرف 73 ہزار، 2016 میں 1 لاکھ 60 ہزار اور 2017 میں 1 لاکھ 3 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔ جبکہ یہ ہر سال بیرون ملک کے دورے بھی کرتے رہے۔
فخر درانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ واضح رہے خان صاحب نے یہ جو ٹیکس ادا کیا ہےاس میں بطور ایم این اے انکی تنخواہ سے کٹنے والا ٹیکس اور بطورکرکٹر انکو ملنے والی پینشن سےکٹنے والا ٹیکس بھی شامل ہے۔ اگر تنخواہ اور پینشن سے کٹنے والی ٹیکس کی رقم نکال دیں تو خود اندازہ لگائیں انہوں نے اپنی جیب سے کتنا ٹیکس ادا کیا ہوگا؟
فخر درانی کے مطابق خان صاحب نے اپنے اثاثوں میں 168 ایکڑ زرعی اراضی ظاہر کی اور یہ بتایا کہ اس سے انکو صرف 23 لاکھ روپے کی آمدن ہوئی جس پر انہوں نے 3 لاکھ 19 ہزار زرعی ٹیکس ادا کیا۔ کیا کوئی پاکستانی بتا سکتا ہے کہ 168 ایکڑ اراضی کی آمدن 23 لاکھ ممکن ہے۔ کوئی بھی ذی شعور شخص یہ بات نہیں مان سکتا۔
فخر درانی نے مزید کہا کہ دوسروں کو ٹیکس کی تلقین کرنے اور خود اسقدر شاہانہ انداز میں رہنے والے اور قیمتی جائیدادیں رکھنے کے باوجود صرف ایک لاکھ ٹیکس وہ بھی تنخواہ میں سےادا کرنے والے شخص کے قول و فعل میں زمین آسمان کا تضاد ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ایف بی آر کہاں سوئی ہوئی ہے۔ عمران خان پر واضح طور پر ٹیکس چوری ثابت ہو رہی ہے کیونکہ جتنے اثاثےانہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں ظاہر کیے ہیں اس حساب سے ٹیکس بہت کم ہے۔ ایف بی آر کو ضرور تحقیقات کرنی چاہیے کہ عمران خان ٹیکس چوری میں ملوث تو نہیں رہے۔کیا ایف بی آر موجودہ وزیراعظم کے اثاثوں اور ٹیکس ریکارڈ کی تحقیقات کرے گی؟
فخر درانی نے یہ بھی کہا کہ بہت سے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ٹیکس انکم پر دیا جاتا ہےجائیدادوں یا اثاثوں پر نہیں۔ان سے بس ایک سوال ہےکہ اگر انکی taxable income ہی نہیں تو اتنی بے تحاشا جائیدادیں کہاں سےبنالی؟اوراگر یہ سب وراثتی جائیدادیں ہیں تو کیا خان کی تمام بہنوں کےنام پر بھی اسکےمقابلےآدھی جائیدادیں ہیں؟
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان پر قوم کے نام اپنے پیغام میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ بائیس کروڑ آبادی کا صرف ایک فیصد ٹیکس گوشوارے جمع کراتا ہے جو کہ بہت کم ہے۔لوگوں کی جانب سے ٹیکس نہ دینے کے باعث حکومت عوام کے لئے ہسپتالوں کی تعمیر' سکولوں اور دیگر سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
وزیراعظم نے ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں پر زور دیا کہ وہ حکومت کی جانب سے شروع کی گئی اثاثے ظاہر کرنے کی سکیم سے فائدہ اٹھائیں جس کے تحت لوگ اپنے غیر ظاہر شدہ اثاثے سامنے لاسکتے ہیں جس سے عوامی فلاح کے لئے ٹیکس جمع کرنے میں حکومت کی مدد ہوگی ۔انہوں نے کہاکہ یہ سکیم اگلے ماہ کی 30 تاریخ تک جاری رہے گی اور اس کے بعد کسی کیلئے بھی استثنا کی کوئی سکیم نہیں آئے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ ٹیکس جمع کرنے والے اداروںنے غیرظاہر شدہ اثاثوں والے لوگوں سے متعلق معلومات تک رسائی حاصل کرلی ہے اور مزید معلومات بھی حاصل کی جارہی ہے ۔ عمران خان نے کہا کہ ٹیکس کی رقم عوام اور ملک پر خرچ کی جائے گی انہوں نے یقین دلایا کہ یہ رقم چوری نہیں ہوگی کیونکہ وہ خود اس کی نگرانی کریں گے۔