یہ بات اہم ہے کہ سلیم شہزاد پاکستان میں دہشتگردی کے موضوعات کو کور کرنے والے باخبر صحافی مانے جاتے تھےانکے طالبان قیادت اور ملکی سلامتی کے اداروں میں اچھے روابط تھے جس کی بنیاد انہیں خبر کے حصول میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔
https://www.youtube.com/watch?v=Gl0V_Yh4YSg
انہوں نے متعدد بار اسامہ بن لادن کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کی خبر دی اور کہا کہ امریکن ایجنسیز اسامہ بن لادن کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بعدازں ایبٹ آباد آپریشن ہو گیا۔ اس وقت پتہ چلا کہ اسامہ 2006 سے ایبٹ آباد میں مقیم تھے جبکہ سلیم شہزاد اسامہ بن لادن کی نقل و حرکت کے بارے میں 2006 میں بھی رپورٹ کر چکے تھے، غالب امکان یہی ہے کہ انہیں اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی کا علم تھا۔
لشکر طیبہ کے رہنماء الیاس کشمیری کی موت کی افواہوں پر سلیم شہزاد نے انکا انٹرویو کیا، اور بتایا کہ طالبان نے الیاس کشمیری کو اہم تنظیمی ذمہ داری سونپ رکھی ہے اور الیاس کشمیری وزیرستان میں موجود ہے۔
27 مئی کو انھوں نے یہ خبر شائع کی تھی کہ پاکستان بحریہ کے کراچی کے مہران بیس پر القاعدہ کے شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا اور اس کی فوری وجہ القاعدہ اور بحریہ کے کچھ افراد کے آپس میں روابط تھے جبکہ شدت پسند اپنے کچھ ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے، اس کے علاوہ شدت پسندوں کے پاس سے مہران بیس کے اندر کے نقشے بھی برآمد ہوئے جو کسی اندر کے آدمی نے ہی فراہم کیے تھے۔
https://www.youtube.com/watch?v=RWCJGlQqzDo
سلیم شہزاد کی یہ سٹوری ستائیس مئی کو پبلش ہوئی جبکہ اس کے دوسرے حصے نے ایک ہفتے بعد شائع ہونا تھا تاہم انہیں اس سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان کے قتل کا الزام ملکی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر لگایا گیا تاہم ادارے کی جانب سے اس کی سختی سے تردید کی گئی۔
اس سے قبل سلیم شہزاد کو آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز بلایا گیا تھا۔ اس طلبی کے بعد سلیم شہزاد نے ہیومن رائٹس واچ کو اس بابت لکھا اور بتایا کہ کس طرح انہیں دھمکایا گیا ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ کس بابت انہیں رپورٹ نہیں کرنی۔ اس خط میں سلیم شہزاد نے لکھا کہ ان کی زندگی کو ملک کے خفیہ ادارے سے خطرہ ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=zJPM15ov5qQ
اپنی گم شدگی سے صرف نو ماہ قبل سلیم شہزاد نے امریکی صحافی ڈیکسٹر فِلکِنز کو لکھا، ’’دیکھو میری زندگی خطرے میں ہے۔ مجھے اب فوراﹰ پاکستان چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘
https://www.youtube.com/watch?v=Kpm9p58yGWg
پاکستان حالیہ برسوں میں صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ملک کے طور پر ابھرا ہے اور شاید اس سال بھی اپنی یہ پوزیشن برقرار رہے، ملک کے مختلف حصوں میں شدت پسندی اور شورش میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ قاتل نامعلوم ہی رہتے ہیں جیسا کہ سلیم شہزاد کے کیس میں بھی ہوا، ایسے میں سلیم شہزاد سمیت پرتشدد واقعات میں مارے جانے والے صحافیوں کے ورثاء کو کب انصاف ملے گا، ملے گا بھی یا نہیں، پاکستانی صحافت، منتخب حکومت اور آزاد عدلیہ کے لیے یہ آج بھی بہت اہم سوال ہے؟ جس سے جتنا صرف نظر کیا جائے گا اتنا ہی یہ سوال بار بار گھوم کر سامنے آتا رہے گا۔