محمد اظہارالحق صاحب شاعر اور ادیب ہیں۔ ایک اچھے سرکاری عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ آج کل روزنامہ دنیا میں کالم لکھتے ہیں۔ عام طور پر اچھا لکھتے ہیں لیکن کبھی کبھی ضرورت سے زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں۔ اسی کیفیت میں انہوں نے اپنا 21 مئی کا کالم لکھا اورسویڈن میں مقیم معروف پاکستانی نژاد سکالر اشتیاق احمد کو اپنے غیظ و غضب کا خوب نشانہ بنایا۔ ان کا لب ولہجہ اور دلائل ان کے شایان شان ہرگز نہیں تھے۔ انہوں نے ایک سینیئر سکالر کے لئے جو زبان استعمال کی اسے کسی طرح بھی شائستہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کا یہ کالم سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہے۔ وہ قرآن کو بھی بیچ میں لے آئے لیکن وہ یہ قرآنی حکم بھو ل گئے کہ ’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو‘۔
ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے یہ کالم کسی کی فرمائش پر لکھا ہے اور اس کا مقصد معاملات کی تفہیم اور مکالمے کا فروغ نہیں بلکہ اپنے قارئین کے ذہن میں ایک سکالر کے خلاف نفرت پیدا کرنا اور شاید بانی پاکستان کے بارے میں ان کی آنے والی کتاب کو ڈس کریڈٹ کرنا تھا۔ ہمارے معاشرے میں پہلے ہی بہت نفرت موجود ہے اس میں اضافہ کر کے معاشرے میں ذرا بھی بہتری نہیں لائی جا سکتی۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ اس سے پہلے بھی میں نے اظہار صاحب کے ایک کالم کے جواب میں ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا۔ اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس کا برا نہیں مانا تھا بلکہ ایک طرح سے میرے دلائل کی تعریف کی تھی۔
تاریخ کے بارے میں سرکاری سچ کو ماننا ہم پر فرض نہیں ہونا چاہیے۔ زندہ قومیں اپنی تاریخ کے بارے میں کھلے بحث مباحثے سے نہیں گھبراتیں۔ اگر کوئی غلط بات کرے تو آپ سچ بات بتا کر غلط بات کی تردید کر سکتے ہیں۔
اسرائیلی پرفیسر شلومو زینڈ نے ایک کتاب لکھی جس میں اسرائیل کے قیام پر سوال اٹھائے اور وہ کتاب وہاں بَیسٹ سَیلر بن گئی تھی۔ ریاست کو پتہ تھا کہ ایک کتاب اس کا وجود خطرے میں نہیں ڈال سکتی۔ کیا ہندوستان میں گاندھی اور نہرو پر تنقید نہیں ہوتی؟ کیا اس سے ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے؟ ہمارے ہاں تو فیس بک پر کسی ہندوستانی جریدے کا لنک دے دیا جائے تو خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو جاتی ہیں۔ شاید ہم میں خود اعتمادی کی کمی ہے۔
ہمدرد یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکڑ منظور احمد نے اپنی کتاب ’رام پور سے کراچی تک‘ میں ایک بہت اچھی بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی ہمارے ہاں تاریخ کی تنقیدی تفہیم کا شعورگہر انہیں ہے۔ ہم تاریخی واقعات کو قضا و قدر سمجھتے ہیں۔ اکثر تاریخی ہستیوں کی ضرورت سے زیادہ تکریم کرنے لگتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کو صنم بنا کر تقریباً پوجنے لگتے ہیں یا ان پر تنقیدی محاکمہ کرنے کو روا نہیں جانتے۔
اظہار صاحب نے اپنے کالم کا آغاز کچھ یوں کیا کہ ’’ قائد اعظم دشمنی اس ملک میں ایک فیشن رہا ہے، اب بھی ہے۔ ایک طرف کچھ مذہبی طبقات، دوسری طرف نام نہاد ’وسیع الظرف‘ حضرات۔ مگر یہ جیسے بھی ہیں اسی ملک کے باشندے ہیں۔ یہیں رہتے ہیں۔ جو کچھ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، اس سے ان ہر دو طبقات کی رائے بہت حد تک بدل بھی چکی ہے‘‘۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ فیشن کیوں رہا ہے یا ہے؟ اس فیشن کی مقبولیت کی وجہ یہ تو نہیں کہ لوگوں کے ذہن میں کچھ سوال تھے اور ان کا اطمینان بخش جواب کسی کے پاس نہ تھا؟ مثلاً قائد اعظم نے تقسیم کا مطالبہ کمیونل مسئلہ حل کرنے کے لئے کیا تھا۔ اس سے یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ کیوں ہو گیا؟ نفرت میں کمی کے بجائے بے تحاشا اضافہ کیوں ہو گیا؟ ملک بنایا تھا مسلمانوں کی حفاظت کے لئے اور کام الٹا کیوں ہو گیا؟ دس لاکھ مسلمان اپنی جان سے گئے اور اس سے بہت زیادہ معاشی طور پر تباہ ہو گئے۔ اتنے بڑے بڑے سانحات کیوں ہوئے؟ ان کی ذمہ داری کس پر ہے؟ یہ کیسی حفاظت تھی؟ ان کی شہرہ آفاق بصیرت کو کیا ہو گیا تھا؟
اظہار صاحب کے علم میں ہوگا کہ مولانا مودودی نے بھی مسلم لیگ کی قیادت پر تنقید کی ہے۔ کیا انہوں نے بھی پروفیسر اشتیاق احمد کی طرح قائد اعظم دشمنی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا؟ مودودی صاحب نے جون 1948 کے ترجمان القرآن میں لکھا تھا کہ ’’یہ عین وہی لوگ ہیں جو اپنی پوری سیاسی تحریک میں اپنی غلط سے غلط سرگرمیوں میں اسلام کو ساتھ ساتھ گھسیٹتے پھرے ہیں۔ انہوں نے قرآن کی آیتوں اور حدیث کی روایتوں کو اپنی قوم پرستانہ کشمکش کے ہر مرحلے میں استعمال کیا ہے ۔۔۔ کسی ملک و قوم کی انتہائی بدقسمتی یہی ہو سکتی ہے کہ نااہل اور اخلاق باختہ قیادت اس کے اقتدار پر قابض ہو جائے ۔۔۔ جونہی انگریز اور کانگرس کی باہمی کشمکش ختم ہوئی تو اس قیادت عظمیٰ نے اپنے آپ کو ایسی حالت میں پایا جیسے اس کے پاؤں تلے زمین نہ ہو۔ اب وہ مجبور ہو گئی کہ جو کچھ جن شرائط پر بھی طے ہو اسے غنیمت سمجھ کر قبول کر لیں۔ بنگال و پنجاب کی تقسیم اسے بے چون و چرا ماننی پڑی۔ سرحدوں کے تعین جیسے نازک مسئلے کو اس نے صرف ایک شخص کے فیصلے پر چھوڑ دیا۔ انتقال اختیارات کا وقت اور طریقہ بھی بلاتامل مان لیا۔ حالانکہ یہ تینوں امور صریح طور پر مسلمانوں کے حق میں مہلک تھے۔ انہی کی وجہ سے ایک کروڑ مسلمانوں پر تباہی نازل ہوئی اور انہی کی وجہ سے پاکستان کی عمارت روز اول ہی سے متزلزل بنیادوں پر اٹھی‘‘۔
انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ہماری قوم نے اپنے لیڈروں کے انتخاب میں غلطی کی تھی اور اب یہ غلطی نمایاں ہو کر سامنے آ گئی ہے۔ ہم چھ سال سے چیخ رہے تھے کہ محض نعروں کو نہ دیکھو بلکہ سیرت اور اخلاق کو بھی دیکھو۔ اس وقت لوگوں نے پروا نہ کی لیکن اب زمام کار ان لیڈروں کو سونپنے کے بعد ہر شخص پچھتا رہا ہے کہ واہگہ سے دہلی تک کا علاقہ اسلام کے نام سے خالی ہو چکا ہے‘‘ ( روزنامہ انقلاب، 9 اپریل 1948)۔
ان کا ایک تاریخی ارشاد یہ بھی ہے کہ ’’افسوس کہ لیگ کے قائد اعظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی نظر سے دیکھتا ہو۔ یہ لوگ مسلمان کے معنی و مفہوم اور اس کی مخصوص حیثیت کو بالکل نہیں جانتے‘‘۔
مودودی صاحب نے فروری 1946 کےترجمان القرآن میں لکھا تھا کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ عام مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے اسلام کا نام بہت لیا جاتا ہے اور ایسی نمائشی باتیں بھی کر دی جاتی ہیں جن سے لیگ کے اکابر کے گہرے جذبہ دینی کا ثبوت بہم پہنچ جائے۔ مگر پورے نظام کی کار فرمائی ایک ایسے طبقے کے ہاتھ میں ہے جو زندگی کے جملہ مسائل میں دین کے بجائے دنیوی (سیکولر) نکتہ نظر سے سوچنے اور کام کرنے والا ہے۔ اسلام کے بجائے مغربی اصول حیات کا معتقد اور مقلد ہے‘‘۔
اظہار صاحب نے پروفیسر اشتیاق صاحب کے خلاف جو فرد جرم لگائی ہے اس میں ایک بہت بڑا الزام یہ ہے: ’’کسی گفتگو، کسی انٹرویو میں یہ صاحب بھارتی مسلمانوں کی بات نہیں کرتے‘‘۔ کیا اظہار صاحب نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اس حالت میں کس نے پہنچایا؟ ڈاکٹر صفدر محمود کے مطابق ان لوگوں کی بہت بڑی اکثریت نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم کی حمایت کی تھی۔ اس کے بعد ان کے وہاں رہنے کا کیا کوئی اخلاقی جواز بنتا تھا؟ پاکستان بنایا گیا تھا دس کروڑ مسلمانوں کے وطن کے طور پر اور جب موقع آیا تو ہندوستان کے مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد کو پیچھے چھوڑ آئے۔ آتے وقت ہندوستانی مسلمانوں کو یہ مشورہ ضرور دیا کہ اب ریاست کے وفادار شہری بن کر رہو۔ اوریا مقبول جان صاحب کا فرمان ہے کہ چونکہ ہندوستان کے مسلمانوں نے تقسیم کے وقت ہجرت نہیں کی تھی اس لئے وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ قائد اعظم نے تقریباً سارے سینیئر مسلمان افسروں کو بھی پاکستان بلوا لیا۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بہت سے تعلیم یافتہ نوجوان بھی پاکستان چلے آئے اور اس طرح ہندوستانی مسلمان بالکل بے سہارا ہو گئے۔ وہاں رہنے والے مسلم لیگی منہ چھپاتے پھرتے تھے۔
ایک طرف تو قائد اعظم نے دو قومی نظریہ کا نعرہ لگایا اور کہا گیا کہ ہندو اور مسلمان اتنے مختلف ہیں کہ وہ اکھٹے نہیں رہ سکتے اور دوسری طرف انہوں نے پنجاب اور بنگال میں اس نظریہ کے بالکل برعکس ہندوؤں اور مسلمانوں کو اکھٹا رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے مئی 1947 میں یہاں تک کہا کہ پنجابی ایک قوم ہیں۔ پنجابی پہلے پنجابی ہوتا ہے بعد میں ہندو یا مسلمان ہوتا ہے۔ یہی بات انہوں نے بنگالیوں کے بارے میں بھی کی۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ 1937 میں بننے والی کانگریسی وزارتوں نے مسلمانوں پر ناقابل بیان مظالم ڈھائے تھے اور اس کی وجہ سے مسلمانوں نے تقسیم کا مطالبہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ جن مسلمانوں کو ’ناقابل بیان مظالم‘ سے بچانے کے لئے تحریک چلائی گئی ان سے تقسیم ہند اور دو قومی نظریہ کے حق میں نعرے لگوا کر وہیں چھوڑ دیا گیا۔ انہیں کہا گیا کہ اب آپ ہندوستان کے وفادار شہری بن کر رہیں۔ یہ ’مظالم‘ پنجاب، سندھ، سرحد اور بنگال میں تو نہیں ڈھائے گئے تھے۔ درد سر میں تھا اور پٹی پاؤں پر باندھ لی گئی۔
قائد اعظم نے 30 مارچ 1941 کو کانپور میں کہا تھا کہ اکثریتی صوبوں میں رہنے والے سات کروڑمسلمانوں کی آزادی کے لئے وہ اقلیتی صوبوں میں رہنے والے دو کروڑ مسلمانوں کی قربانی کے لئے تیار ہیں۔ اس بات کا کیا مطلب تھا؟ کیا یہ دو کروڑ مسلمان بھیڑ بکریاں تھے؟ اس سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ کے پہلے صدر چودھری خلیق الزمان نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں رضوان اللہ صاحب کی دل خراش کہانی لکھی ہے۔
رضوان اللہ صاحب اس مسلم لیگی وفد کا حصہ تھے جس نے یکم اگست 1947 کو قائد اعظم سے دہلی میں الوداعی ملاقات کی تھی۔ رضوان صاحب نے ٹیڑھے سوال پوچھنے شروع کر دیے کہ اب ہمارا کیا بنے گا؟ اب ہماری کیا حیثیت ہوگی؟ خلیق الزمان کے بقول میں نے قائد اعظم کو کبھی اتنا پریشان نہیں دیکھا جتنا اس وقت دیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اس گفتگو کا نتیجہ تھا کہ قائد اعظم نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں دو قومی نظریے میں خاطر خواہ ترمیم کر دی۔
انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ دو قومی نظریہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے مضر ثابت ہوا۔ ان کے مطابق حسین شہید سہروردی کی بھی یہی رائے تھی۔ یہ سہروردی وہی ہیں جو بعدازاں پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ اظہار صاحب نے لکھا ہے کہ ’’ابھی چار اپریل 2020 کو بی جے پی کے معروف لیڈر اور پارلیمنٹ کے رکن سبرامنیم سوامی نے علی الاعلان کہا ہے کہ مسلمان برابر کے شہری نہیں ہیں۔ یہی بی جے پی حکومت کا اجتماعی مؤقف ہے۔ یہی ہٹلر کا یہودیوں کے حوالے سے مؤقف تھا‘‘۔ اگر یہ بی جے پی کا اجتماعی مؤقف ہوتا تو سوامی صاحب نے اس بیان کی تردید کیوں کی؟ 4 اپریل والی تاریخ درست نہیں ہے۔ اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے 3 اپریل کو ٹویٹ کیا تھا کہ بی جے پی کی قیادت 20 کروڑ مسلمانوں کے بارے میں اسی طرح بات کر رہی ہے جیسے نازی قائدین یہودیوں کے بارے میں کیا کرتے تھے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہاں تو پارلیمنٹ کے ایک رکن نے یہ بات کی جس کی اس نے تردید بھی کر دی۔ ہمارے ہاں تو بہت پہلے غیر مسلموں کو کمتر قرار دے دیا گیا تھا۔ اگر یہ نازیوں کا راستہ ہے تو ہم کافی عرصہ سے اس راستے پر چل رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں۔ کیا کوئی پاکستانی دیانت داری سے کہہ سکتا ہے کہ پاکستان میں تمام باشندے برابر کے شہری ہیں؟ کچھ عرصہ پہلے ایک احمدی سٹیشن ماسٹر کا تبادلہ چیچہ وطنی کیا گیا تو شہر میں ہڑتال ہو گئی تھی۔ کیا اس طرح کی برابری کسی اور ملک میں بھی پائی جاتی ہے؟ کیا عمران خان صاحب عاطف میاں کا قصہ بھول گئے ہیں؟ وہ عاطف میاں کو پسند کرنے کے باوجود انہیں اپنی اکنامک ایڈوائزری کونسل کا رکن کیوں نہ بنا سکے؟ ریاست کے طاقت ور حلقوں کی بھرپور حمایت کے باوجود ان پر بے بسی کیوں طاری ہو گئی تھی؟
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
ابھی چند دن پہلے شاہد آفریدی نے کہا تھا کہ کرونا سے بڑی بیماری مودی کے دل و دماغ میں ہے۔ یہ مذہب کی بیماری ہے۔ وہ مذہب کو لے کر سیاست کر رہا ہے۔ ہمارے اتنے مایہ ناز کھلاڑی نے یہ کتنی جاہلانہ بات کی ہے؟ اس سے پہلے بھی وہ اس طرح کی بونگیاں مارتا رہا ہے۔ کیا 22 کروڑ کے ملک میں ایک شخص بھی اسے سمجھانے والا نہیں ہے؟ کیا اسے کسی نے نہیں بتایا کہ پاکستان مذہب کے نام پر بنایا گیا تھا؟ کیا مسلمانوں کے لئے مذہب کو لے کر سیاست کرنا حلال ہے اور باقیوں کے لئے حرام؟
پاکستانی کالم نویسوں اور ٹی وی اینکرز کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ہندوستان کے حالات پر تنقید کرنے والے وہاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ پاکستان کے حالات کے پیش نظر کوئی پاکستانی ہندوستانیوں کومذہب کو سیاست سے الگ رکھنے، انسانی حقوق کی پاس داری اور شہریوں کی برابری پر لیکچر دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انہیں ہر وقت ذوق کا یہ مصرعہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
کیا پاکستان میں ریاست کے اہم ترین عہدوں کے لئے تمام غیر مسلموں کو آئینی طورپر نااہل قرارنہیں دیا گیا ہے؟ کیا پارلیمنٹ کے غیرمسلم ارکان کو بھی اسلامی نظریہ کے تحفظ کا حلف نہیں اٹھانا پڑتا؟ کیا ہندوستان میں بھی تمام ارکان پارلیمنٹ کو ہندو نظریہ کے تحفظ کا حلف اٹھانا پڑتا ہے؟ کیا اظہار صاحب اور عمران خان کو ان باتوں کا علم نہیں ہے؟ ہمارے یہ دوہرے معیار کب ختم ہوں گے؟ کیا اظہار صاحب عمران خان سے یہ مطالبہ کریں گے کہ پاکستان کو تمام شہریوں کو آئینی طورپر برابر قرار دیا جائے اور حلف کی عبارت میں ترمیم کی جائے؟
کیا ہمارے میڈیا میں کبھی یہ بحث ہوئی کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون نے 1950 میں کیوں نہ صرف اپنا عہدہ بلکہ ملک بھی چھوڑ دیا تھا؟ ان کا خط استعفا ایک چشم کشا دستاویز ہے۔ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ طویل غور و خوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان میں ہندوؤں کا کوئی مستقبل نہیں۔ مشرقی پاکستان میں دس ہزار ہندوؤں کا قتل عام ہوا تھا اور وہ وفاقی وزیر ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ کر سکے۔ بے بسی کے عالم میں وہ یہ ملک چھوڑکر چلے گئے تھے۔ یہ وہ باتیں ہیں جنہیں عوام سے ہر ممکن کوشش کر کے چھپایا جاتا ہے کیونکہ اس سے ہماری پاکی داماں کی حکایت پر حرف آتا ہے۔ منڈل صاحب کے استعفے کا متن حاضر خدمت ہے۔
عمران خان نے نریندرمودی کو ہٹلر سے تشبیہ دی اور اظہار صاحب اس بات پر فرحاں و شاداں ہو گئے۔ وہ یہ بھول گئے کہ خان صاحب اسی ہٹلر کی انتخابی جیت کے خواہاں تھے۔ انہوں نے اس کی جیت سے امن کی امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ خان صاحب نے خود درخواست کر کے 11 دسمبر 2015 کو نئی دہلی میں اسی ہٹلر سے ملاقات کا شرف حاصل کیا تھا اور اسے پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی تھی۔ عمران خان سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا جرمنی میں کوئی ہٹلر پر تنقید کر سکتا تھا؟ کیا ہندوستان میں لوگ مودی پر تنقید کر رہے ہیں یا نہیں؟ کیا ہٹلر نے اقتدار میں آنے کے بعد کوئی الیکشن کروایا تھا؟ کیا مودی نے بھی الیکشن کا جھنجٹ ختم کر دیا ہے؟ یہاں کچھ اور سوال بھی پیدا ہوتے ہیں۔
جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں جو کچھ کیا، کیا اس کی روشنی میں انہیں ہٹلر سے تشبیہ دی جا سکتی ہے؟ کیا جنرل مشرف نے درست طورپر اپنی کتاب میں ذوالفقارعلی بھٹو کو فاشسٹ لیڈر قرار دیا ہے؟ کیا بھٹو صاحب کو ہٹلر سے تشبیہ دی جا سکتی ہے؟ قائد اعظم نے تو پوری کانگرس کو فاشسٹ قرار دے دیا تھا۔ کیا گاندھی، نہرو اور آزاد بھی فاشسٹ تھے؟ کیا ان سب کو ہٹلر سے تشبیہ دی جا سکتی ہے؟
عمران خان کہتے ہیں کہ یہ گاندھی اور نہرو کا انڈیا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی نظر میں گاندھی اور نہرو اچھے انسان تھے۔ کیا اظہار صاحب بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں یا یہاں آ کر ان کی اور خان صاحب کی راہیں جدا ہو جاتی ہیں؟ ویسے اگر خان صاحب کی نظر میں گاندھی اور نہرو اچھے انسان تھے تو ان دونوں قائدین کے خلاف ہماری نصابی کتابوں میں پائی جانے والی نفرت کیوں ختم نہیں کروا دیتے؟
اظہارصاحب نے فرمایا ہے کہ ڈاکٹراشتیاق پاکستان کے ’’ قائد اعظم دشمن حلقوں میں خوب پذیرائی پا رہے ہیں۔ بھارت کے اینکر انہیں ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں گویا ایک طارق فتح ہاتھ آ گیا ہے۔ معروف پاکستان دشمن بھارتی اینکر اروند سہارن کے ساتھ ان صاحب نے ڈیڑھ، ڈیڑھ گھنٹے کے چھ سات ایپی سوڈ کیے ہیں‘‘۔
ان دعؤوں سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ اظہار صاحب نے یہ کالم لکھنے سے پہلے تحقیق کا ذرا سا تردد بھی نہیں کیا۔ ورنہ انہیں علم ہوتا کہ اشتیاق صاحب آج کل پاکستان میں نہیں ہیں۔ وہ کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج لاہور میں چند ماہ پڑھانے کے بعد پچھلے سال مارچ میں سویڈن واپس لوٹ گئے تھے۔
اظہار صاحب کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ امرتسر میں قائم ہونے والے دنیا کے پہلے پارٹیشن میوزیم نے اشتیاق صاحب کو 2017 میں ایک لیکچر کے لئے مدعو کیا تھا۔ ان کے سویڈش پاسپورٹ کے باجود انہیں ہندوستان کا ویزا نہیں ملا تھا۔اظہار صاحب سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ بھارت کے ان اینکرز کے نام بتا دیں جو اشتیاق صاحب کو ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں۔ اظہار صاحب نے اس بات کا تذکرہ نہیں کیا کہ آفتاب اقبال نے بھی اپنے یوٹیوب چینل کے لئے اشتیاق صاحب کا تفصیلی انٹرویو کیا تھا۔ میں نے بھی ایک ایف ایم ریڈیو سٹیشن کے لئے ان کا انٹرویو کیا تھا۔ اظہار صاحب نے نیوزی لینڈ میں محکمہ شماریات میں ملازمت کرنے اوراپنے فارغ وقت میں یوٹیوب کے ذریعے امن و آشتی کا پیغام پھیلانے کی کوشش کرنے والے اروند سہارن پر ’معروف پاکستان دشمن اینکر‘ ہونے کا فتویٰ صادر کر دیا ہے۔ اظہار صاحب نے یہ بات نہیں بتائی کہ اروند نے پاکستان کی موٹروے کے بارے میں ایک تعریفی وڈیو بنائی تھی اور وہ چار دفعہ اوریا مقبول جان کا انٹرویو بھی کر چکا ہے۔ اوریا صاحب نے اسے پاکستان آنے کی دعوت دی اوراپنے ایک پروگرام کا حصہ بھی بنایا۔ وہ جیو کے ایک پروگرام میں بھی شریک ہو چکا ہے۔ شاید اسی وجہ سے تو ہندوستان میں کچھ لوگوں نے اسے پاکستان کا ایجنٹ بھی قرار دے دیا ہے۔ اگر وہ پاکستان کا دشمن ہے تو پھراظہار صاحب ہمیں کسی ایک غیر پاکستانی کا نام بتا دیں جو پاکستان کا دوست ہو؟
اظہار صاحب نے کشمیر کی بات بھی ہے۔ اگر ان کے پاس کچھ وقت ہو تو میرا یہ مضمون ملاحظہ فرمائیں۔ اس میں دو قومی نظریے کے بارے میں بھی گفتگو کی گئی ہے۔ اگر وہ میری کسی بات کو غلط ثابت کر دیں تو مجھے خوشی ہوگی۔
میں یہاں کچھ ایسی باتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کا تذکرہ کرنے کا خطرہ پاکستان کا کوئی کالم نویس، ٹی وی اینکر یا تاریخ نویس مول لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ لاہور کے معروف صحافی شورش کاشمیری نے حسین شہید سہروردی کے بارے میں ایک کتابچہ لکھا ہے۔ شورش صاحب کہتے ہیں کہ ان کی حسین شہید سہروردی سے بہت دوستی تھی۔ ایک دفعہ سہروردی صاحب نے کہا کہ میری دو خواہشات ہیں۔ پہلی خواہش یہ ہے کہ میں پاکستان کا وزیر اعظم بنوں۔ میری دوسری خواہش یہ ہے کہ ہمارے عوام میں اتنی رواداری پیدا ہو جائے کہ میں بطور وزیر اعظم ایک جلسہ عام میں عوام کو گاندھی کی وہ تصویر دکھا سکوں جو ہم اپنی سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے چھپاتے رہے ہیں۔ ان کی پہلی خواہش تو پوری ہو گئی لیکن ہماری سیاسی مصلحتوں اور قومی تعصبات نے ان کی دوسری خواہش پوری نہ ہونے دی۔
تحریک پاکستان کے ایک رہنما سردار شوکت حیات نے اپنی کتاب ’گم گشتہ قوم‘ میں لکھا ہے کہ ایک دن مجھے قائد اعظم کی طرف سے پیغام ملا، ’’شوکت مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم بٹالہ جا رہے ہو جو قادیان سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔ تم وہاں جاؤ اور حضرت صاحب کو میری درخواست پہنچاؤ کہ وہ پاکستان کے حصول کے لئے اپنی نیک دعاؤں اور حمایت سے نوازیں‘‘۔
میں نے ان تک قائد اعظم کا پیغام پہنچایا اور وہ اسی وقت نیچے تشریف لائے اور استفسار کیا کہ قائد اعظم کے کیا احکامات ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ آپ کی دعا اور معاونت کے طلب گار ہیں۔ انہوں نے جواباً کہا کہ وہ شروع ہی سے ان کے مشن کے لئے دعا گو ہیں اور جہاں تک ان کے پیروکاروں کا تعلق ہے کوئی احمدی مسلم لیگ کے خلاف انتخاب میں کھڑا نہ ہوگا۔ اور اگر کوئی اس سے غداری کرے گا تو وہ ان کی جماعت کی حمایت سے محروم رہے گا۔ اس ملاقات کے نتیجے میں ممتاز دولتانہ نے سیالکوٹ کے حلقے میں ایک احمدی نواب محمد دین کو بھاری اکثریت سے شکست دی۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے مولانا مودودی سے بھی ملنے کے لئے حکم فرمایا تھا۔ وہ پٹھان کوٹ میں چوہدری نیاز کے گاؤں سے متصل باغ میں رہائش پذیر تھے۔ جب میں نے انہیں قائد اعظم کا پیغام پہنچایا کہ وہ پاکستان کے لئے دعا کریں اور ہماری حمایت کریں تو انہوں نے جواباً کہا کہ وہ کیسے ’ناپاکستان‘ کے لئے دعا کر سکتے ہیں۔ بعد ازاں یہی مولانا میری مدد کے طلب گار ہوئے کہ انہیں ان کے علاقے کے غیر مسلموں سے بچایا جائے۔ میں اس وقت پنجاب میں وزیر تھا۔ چنانچہ میں نے فوج کی مدد سے انہیں باحفاظت پٹھان کوٹ سے پاکستان پہنچایا۔
ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال اپنی کتاب ’زندہ رود‘ میں لکھتے ہیں کہ اقبال کو ہندوؤں سے کوئی تعصب، دشمنی یا عناد نہ تھا بلکہ ان کی ترقی اور کامیابی پر خوش ہوتے تھے۔ سر فرانسس ینگ ہسبنڈ کے نام ایک خط میں تحریر کرتے ہیں: ’براہ کرم یہ نہ سمجھیں کہ مجھے ہندوؤں سے کوئی تعصب ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں ایثاروجرات کی جو سپرٹ انہوں نے دکھائی ہے اس کی میں بڑی قدر کرتا ہوں۔ انہوں نے زندگی کے میدان میں ممتاز افراد پیدا کیے ہیں اور معاشی اور معاشرتی راستوں پر تیزی سے گامزن ہیں۔‘
فرزند اقبال مزید لکھتے ہیں کہ ’ہندوؤں اور سکھوں کے مذہبی اوتاروں اور بانیوں سے انہیں دلی عقیدت تھی۔ رام چندر جی کی مدح میں نظم لکھی اورانہیں امام ہند، چراغ ہدایت اورملک سرشت کہا۔ اسی طرح بابا گرونانک کو پیغمبر توحید و حق، توحید پرست اور نور ابراہیم کہہ کر خطاب کیا۔ گوتم بدھ کو بھی پیغمبر کا مرتبہ دیا۔ رام چندر جی کی مدح میں نظم تو بالآخر کفر کے فتوے پر منتج ہوئی۔ رامائن اور گیتا کا منظوم ترجمہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ ہندو مذہب کے دشمن کبھی بھی نہ تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد سے تمام عمر ان کے گہرے روابط رہے۔ سوامی رام تیرتھ کے ساتھ ان کے زندگی بھر مخلصانہ تعلقات قائم رہے۔ سر تیج بہادر سپرو کے وہ مداح تھے۔ اور نہرو خاندان بالخصوص پنڈت جواہر لعل نہرو سے تو واقعی محبت کرتے تھے۔ راقم نے اپنی آنکھوں سے انہیں پنڈت جواہر لعل نہرو سے شفقت کا اظہار کرتے دیکھا تھا۔ گھر کے نجی ماحول میں اقبال نے راقم کی ابتدائی تعلیم کے لئے اسے ایک ہندو استاد جناب ماسٹر تارا چند کے سپرد کر رکھا تھا جس پر انہیں بہت اعتماد تھا۔ زندگی کے آخری چار پانچ سالوں میں اقبال کے معالج ایک ہندو ڈاکٹر جمعیت سنگھ تھے۔ اور اقبال کی وفات کے بعد جب تک وہ زندہ رہے بغیر کسی معاوضے کے خاندان اقبال کی خدمت کرتے رہے۔‘
کیا اظہار صاحب یہ باتیں اپنے کالم میں لکھ سکتے ہیں؟ اگر انہوں نے اگر یہ باتیں اپنے کالم میں لکھ دیں تو ان کی کالم نویسی سخت خطرے میں پڑ جائے گی۔ ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ انہیں غدار قرار دے دیا جائے۔ ویسے بھی پاکستان میں جتنے لوگوں کو غدار قرار دیا گیا ہے اس کا ریکارڈ کوئی ملک نہیں توڑ سکا ہے۔ پاکستان غدار بنانے والا سب سے بڑا کارخانہ بن چکا ہے۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل صاحب نے اپنی کتاب میں پاکستان کو غداروں کی جنت قرار دیا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ پاکستان کے غداروں کی فہرست میں سہروردی، شیرِ بنگال مولوی فضل الحق، اسکندر مرزا، فیروز خان نون، فاطمہ جناح، شیخ مجیب الرحمان، مولانا بھاشانی، جی ایم سید، باچا خان، ڈاکٹر خان صاحب، غوث بخش بزنجو، عطاءاللہ مینگل، پیرصاحب مانکی شریف، میاں افتخارالدین، مظہر علی خان، ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو، بے نظیر، نواز شریف، ممتاز بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ، پرویز مشرف، زرداری، رحمان ملک، اکبر بگتی، محمود اچکزئی، منظور پشتین، فیض، احمد فراز، شیخ ایاز، حبیب جالب، عاصمہ جہانگیر، حامد میر، حسین حقانی، مشاہد حسین سید، نجم سیٹھی، اعتزاز احسن، ملالہ یوسف زئی، میر شکیل الرحمان اور پرویز ہودبھائی شامل ہیں۔ خود بانی پاکستان بھی اس الزام سے نہ بچ سکے تھے۔ چودھری رحمت علی نے انہیں غدار اعظم قرار دیا تھا۔
خواجہ ناظم الدین نے سہروردی کو بھارتی ایجنٹ اور پاکستان کا دشمن قرار دیا تھا۔ بعد ازاں انہیں اسلامی دنیا کا غدار بھی قرار دیا گیا۔ تاہم کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کی ایک اہم سڑک کو ان کے نام سے موسوم کر کے انہیں پاکستان کا مستند ہیرو تسلیم کر لیا گیا تھا۔ یہی سلوک قرارداد لاہور پیش کرنے والے ’غدار‘ شیربنگال مولوی فضل الحق کے ساتھ بھی کیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر اور سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ جام صادق علی کو بھارتی ایجنسی را کا ایجنٹ قرار دیا جا چکا ہے۔ بھٹو صاحب نے جنرل ایوب خان پر کشمیر بیچنے کا الزام لگایا تھا۔ چودھری پرویز الٰہی نے پی ایم ایل این کے تمام لوگوں کو مودی کے ایجنٹ قرار دیا ہے۔
اظہار صاحب سے ایک اور درخواست ہے۔ براہ مہربانی ہماری رہنمائی فرماتے ہوئے بتا دیں کہ بانی پاکستان کس قسم کی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے؟ کیا وہ اسلامی ریاست چاہتے تھے یا سیکولر؟ ریاست کا بیانیہ تو یہ ہے کہ اسلامی ریاست بنانا مقصود تھا۔ اسی لئے تحریک کے دوران نعرہ لگایا گیا ’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘ لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان بن گیا تو اس نعرے سے لاتعلقی کا اظہارکر دیا گیا (بحوالہ داغوں کی بہار)؟ کہا گیا کہ مذہب کا ریاست کے امور سے کوئی تعلق نہیں۔ ملک بنایا تھا اسلامی قانون کے لئے اور وزیرقانون بنا دیا ایک ہندو کو۔ شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی کو یہ عہدہ کیوں نہ دیا گیا؟ اسلام کے نفاذ کے لئے عملی اقدامات کیوں نہ کیے گئے؟ شراب اور سود پر پابندی کیوں نہ لگائی گئی؟ جاگیرداری کے خاتمے کی طرف پیش قدمی کیوں نہ کی گئی؟ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بجائے ایک پکے احمدی کو وزیر خارجہ کیوں بنایا گیا؟ یہ وہی صاحب ہیں جو 1931 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر بن گئے تھے۔
قائد اعظم نے 26 مارچ 1948 کو چٹاگانگ میں ایک استقبالیہ سے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پاکستان کی قطعی اساس سوشل جسٹس اور اسلامی سوشلزم پر استوار ہونی چاہیے جو مساوات اور انسانی اخوت پر زور دیتا ہے‘‘۔ یہ اسلامی سوشلزم کیا چیز ہے؟ کیا وہ اسلام کو مکمل ضابطہ حیات نہیں سمجھتے تھے؟ مفتی تقی عثمانی صاحب کے مطابق اسلام اور سوشلزم زندگی کے دو بالکل مختلف نظام ہیں جن میں مطابقت ممکن نہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک مہمل نعرہ ہے جو دونوں معاشی نظاموں یا کم از کم اسلامی نظام معیشت سے ناواقفیت پر مبنی ہے ( فتاویٰ عثمانی، جلد اول)۔
افسوس کہ ہماری سرکاری تاریخ نویسی اب تک سیاسی مصلحتوں اور قومی تعصبات کا شکار ہے۔ جو بھی اس سے ذرا سا بھی انحراف کرتا ہے قابل گردن زدنی قرار پاتا ہے۔ اگر ہمارے سرکاری تاریخ نویس سچے ہیں تو انہوں نے تقسیم ہند پر لکھی جانے والی مقبول ترین کتاب ’فریڈم ایٹ مِڈنائٹ‘ پروفیسر کے کے عزیز کی کتاب ’مرڈر آف ہسٹری‘ اور پروفیسر اشتیاق احمد کی پنجاب کے فسادات پر لکھی جانے والی کتاب کا کوئی جواب کیوں نہیں دیا ہے؟ ان کے پاس تو ریاست کے تمام ذرائع موجود ہیں، وہ یہ قومی خدمت سرانجام دینے میں سستی کیوں کر رہے ہیں؟
اگراظہار صاحب صحافتی اخلاقیات پر یقین رکھتے ہیں تو انہیں آئندہ کالم میں اشتیاق احمد صاحب اور اروند سہارن سے معذرت کرنی چاہیے۔ اگر وہ ان پر تنقید کرنا چاہیں تو ضرور کریں لیکن تحقیق کی بنیاد پر، تعصب اور سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر نہیں۔ روزنامہ دنیا کو بھی اس بارے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔