اس خوف کی بھی ایک وجہ ہے۔ میں نے فیس بک کا اکاؤنٹ دس سال پہلے بنایا تھا، ان دس سالوں میں پہلی مرتبہ مجھے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا سے ڈر لگنے لگا ہے۔ اب میں جب بھی فیس بک سکرول کرتا ہوں تو یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں ڈاکٹر کو کرونا ہو گیا، فلاں ڈاکٹر کرونا سے جان کی بازی ہار گیا، kpk کی نرس کرونا کی وجہ سے انتقال کر گئی، میڈیکل سٹوڈنٹ کا کرونا ٹیسٹ مثبت آ گیا، مجھے گذشتہ 24 گھنٹوں میں اس فیس بک نے تین ڈاکٹر، ایک نرس اور ایک میڈیکل سٹوڈنٹ کی وفات کی خبر دی ہے اور یوں مجھے فیس بک سے مزید ڈر لگنے لگ گیا ہے۔
وطن عزیز کے تمام ڈاکٹرز اور ان کی تنظیموں نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ عید کے موقع پر لاک ڈاؤن میں نرمی مت کریں، لیکن حکومت نے تاجروں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، اوپر سے چیف جسٹس صاحب نے یہ ریمارکس دیتے ہوئے "عوام نے صرف عید پر نئے کپڑے پہننے ہوتے ہیں" لاک ڈاؤن ختم کروا دیا، عوام جو بھوک سے مر رہی تھی، بازاروں پر ٹوٹ پڑی، اس غلطی کی سزا ڈاکٹرز بھگت رہے ہیں، جو دھرا دھر اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے جا رہے ہیں۔ باوجود اس کے، آپ ڈاکٹرز کا حوصلہ بندھاتے، الٹا ان کے خلاف گھٹیا مہم شروع کر دی گئی، کہا گیا کہ ڈاکٹرز کرونا کے مریضوں کو چیک نہیں کرتے، کرونا کے مریضوں کو زہر کا ٹیکہ لگا کر خود مار دیتے ہیں، بعد میں ان کے گردے بیچتے ہیں، سوشل میڈیا پر ڈاکٹرز کی تضحیک کی جا رہی ہے، ان عقل سے عاری لوگوں سے کوئی پوچھے، اگر ڈاکٹر کرونا کے مریض نہیں چیک کر رہے، تو انہیں کرونا کیسے ہو رہا؟ اگر کرونا کے مریضوں کو مار کر یہ ڈالر لے رہے ہیں تو خود مر کر انہیں ڈالروں سے اپنی قبریں پکی کر رہے ہیں؟
ایک طرف ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف ہے، جو کہ کرونا کے خلاف فرنٹ لائن پر کام کر رہا ہے، اور دوسری طرف عوام ہے، جو کہ ابھی بھی اس کو ایک ڈرامہ اور یہودی سازش سمجھتی ہے۔ یہ عوام عجیب ہے، جب وبا شروع میں تھی، انہوں نے نام نہاد لاک ڈاؤن ہر عمل کیا، ماسک پہنے، بازار بند کیے، اجتماعات بھی نہیں ہوتے تھے، بے وقت اذانیں بھی دیں، لیکن جیسے ہی وبا اپنی انتہا کو پہنچی، اس قوم نے ماسک پہننا چھوڑ دیے، بازار کھل گئے، اجتماعات ہونے لگ گئے، شاپنگ رج کے کی، ٹرانسپورٹ کھل گئی، کرونا بذات خود اس قوم کی عقل و دانش پر ماتم کر رہا ہو گا۔
افسوسناک ترین بات یہ ہے کہ ہماری قوم ابھی بھی Denial phase میں ہے، جو ابھی بھی یہی سمجھتی ہے کہ کرونا ہے ہی نہیں، ڈاکٹرز جھوٹ بول رہے ہیں۔ عید پر شاپنگ کرنے کے اثرات اب نظر آنا شروع ہو گئے ہیں، جس عوام کے سمندر نے شاپنگ کا رخ کیا تھا، اب یہی عوامی سمندر، بخار، کھانسی اور سانس میں دشواری کی علامات لیے ہسپتالوں کی ایمرجنسی کا رخ کر رہی ہے، پنجاب کی حد تک، تمام سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجینسیاں فل ہیں، آئی سی یو بھی مریضوں سے بھر چکے ہیں، وینٹیلیٹرز تھے، وہ مریضوں کو لگ چکے، اب وینٹیلٹرز کے لیے مریضوں میں دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہسپتالوں میں لواحقین وینٹیلیٹرز کے لیے ایک دوسرے سے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔ اب بندہ انہیں کہے کہ اور کرو شاپنگ۔
پچھلے چوبیس گھنٹوں میں ملک میں کرونا کے 2 ہزار سے زائد نئے کیسز آئے ہیں، جو کہ اٹلی، سپین اور چین کی نسبت کہیں زیادہ ہیں، 57 لوگ اس مرض کی وجہ سے جان کی بازی ہار بیٹھے ہیں، لیکن بازاروں میں اسی طرح رش ہے، اس وقت سے ڈریں جب یہاں بھی اٹلی کی طرح دن میں سینکڑوں اموت ہوں گی اور ڈاکٹرز چاہتے ہوئے بھی آپ کی جان بچا نہیں پائیں گے۔
ڈاکٹرز حفاظتی سامان نا ہونے کے باوجود بھی کرونا کے مریضوں کو ڈیل کر رہے ہیں، اس عمل میں وہ خود کرونا کا شکار ہو رہے ہیں، میرے اپنے کئی جاننے والے ڈاکٹر اس مرض کا شکار ہوکر قرنطینہ میں چلے گے ہیں۔ کچھ ایسے ڈاکٹرز بھی ہیں، جو اپنے خاندان کے اکلوتے کفیل ہیں، انہیں اپنے سے زیادہ اپنے گھر والوں کی فکر ہوتی ہے، اگر خدانخواستہ انہیں کچھ ہو گیا تو ان کے گھر والوں کا کیا ہو گا؟ ان کی پریشانی بلکل جائز ہے۔ میرے بڑے بھائی ڈاکٹر ارسلان کی کرونا وارڈ میں ڈیوٹی ہے، انہیں اپنے گھر والوں سے ملے ایک مہینے سے زائد دن ہو چکے ہیں، اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ہم آٹھ دوستوں کی ڈیوٹی الائیڈ ہسپتال میں ہے، وارڈ مختلف ہیں، جب بھی کسی کی ڈیوٹی ہے، ہم سب دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے اس دوست کو اپنی حفظ و ایمان میں رکھے، یہ ہماری نہیں ہر ڈاکٹر کی کہانی ہے۔
مجھے کرونا سے ڈر لگتا ہے، میں اس ڈر کی وجہ سے باہر نہیں جاتا، اجتماع میں نہیں جاتا، بازار گئے ہوئے عرصہ ہو گیا، لوگوں سے نہیں ملتا، ہر وقت ماسک پہنتا ہوں، ہاں اگر یہ سب اختیار کرنا بزدلی ہے، تو ہاں میں بزدل ہوں، ڈرپوک بھی ہوں، مجھے اس کرونا کی وجہ مرنے سے ڈر لگتا ہے، میں جب بھی ڈیوٹی کرنے ہسپتال جاتا ہوں، میں دعائیں پڑھ کر جاتا ہوں۔ شاید ہر ڈاکٹر آجکل یہی کر رہا ہے۔ میں اب جب کرونا سے لڑتے کسی ڈاکٹر کی وفات کی خبر سنتا ہوں، میں روتا ہوں، اندر سے ٹوٹ جاتا ہوں، میں خود کو بڑی مشکل سے سنبھالتا ہوں، ابھی سنبھلتا ہی ہوں تو ایک اور افسوسناک خبر آ جاتی ہے، میں پھر ٹوٹ جاتا ہوں، تین ہفتوں سے یہی کیفیت ہے۔
کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ جو ڈاکٹرز چلے گئے، انہیں شہید کہنا کتنا آسان ہے، کیا شہید کہنے سے ان کے گھر والوں کے غم آسان ہو جائیں گے، شاید اس بات کا جواب نفی میں ہے۔ میرا ارباب اختیار سے سوال ہے، حفاظتی اقدامات نا ہونے کی وجہ سے جو ڈاکٹرز مر رہے ہیں، اس کی FIR کس کے خلاف کٹوائی جائے؟ ان کے گھر والوں کے دکھ کا مداوا کیسے کیا جائے؟ کیا ڈاکٹرز، نرسز کی زندگیاں اتنی سستی اور بے وقت ہیں کہ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ڈاکٹرز پر نہیں، ان کے خاندان والوں پر ہی رحم کر لیں۔
میری حکومت، چیف جسٹس سے اپیل ہے خدارا ڈاکٹرز کی حالت پر رحم کریں، فی الفور لاک ڈاؤن کا اعلان کریں، اجتماعات، پبلک ٹرانسپورٹ پر دوبارہ پابندی لگائی جائے، بازاروں کو بند کیا جائے۔ ڈاکٹرز کو حفاظتی سامان کی بلاتعطل فراہمی ممکن بنائی جائے۔ اگر ہم نے ایمرجنسی اقدامات نا کیے، تو حالات اٹلی سے بھی زیادہ برے ہو جائیں گے اور دفنانے کے لیے قبرستانوں میں جگہ کم پڑ جائے گی۔ میری عوام سے بھی درخواست ہے کہ خدارا ہم پر نہیں تو خود پر ہی رحم کر لیں۔ یہ شاپنگز، سینما دیکھنا اور دیگر تفریحات کرونا کے ختم ہونے تک مؤخر کر دیں۔ ہم پر ترس نہیں آتا تو اپنے پیاروں پر ہی ترس کھا لیں۔ گھروں میں بیٹھیں، ماسک پہنیں اور اجتماعات میں جانے سے گریز کریں۔
ہاں! اگر آپ کو اب بھی یہ سب کچھ ڈرامہ اور یہودی سازش لگتی ہے تو کسی سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی یا کرونا وارڈ کا چکر لگا لیں۔ وہ آپ جیسے لوگوں سے بھری ہوئی ہیں جو کہ کرونا کو ڈرامہ کہتے تھے۔ اب بھی وقت ہے کہ اس کرونا سے ڈر لیں ورنہ ہماری داستان نا ہو گی داستانوں میں۔
تحریر کی وجہ: میرے سینئر بھائی، ڈاکٹر تحسین کے بڑے بھائی کرونا کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ ان کا غم ان کی آواز میں واضح تھا۔ اللہ ان کے مرحوم بھائی کی مغفرت کرے، امین۔