گذشتہ ہفتے حامد میر نے اسلام آباد میں صحافی اسد علی طور پر ہوئے حملے کے خلاف احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ان کے اغواکاروں پر شدید تنقید کی تھی؛ اس تقریر میں انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری کے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں اس بیان کا جواب دیتے ہوئے کہ صحافی اسائلم حاصل کرنے کے لئے خود پر حملے کرواتے ہیں، کہا تھا کہ صحافی تو پاکستان میں رہتے ہیں، البتہ جنرل مشرف ضرور 'چوہے کی طرح' بھاگا تھا اور کہا تھا کہ وہ کسی بھی فورم پر بحث کرنے کے لئے تیار ہیں اور یہ ثابت کریں گے کہ پاکستان سے غداری صحافیوں نے نہیں کی، بلکہ ایوب خان اور جنرل مشرف نے پاکستان کے اڈے امریکہ کو بیچے.
اسی احتجاج کے دوران تقریر کرتے ہوئے حامد میر نے کہا تھا کہ آئندہ اگر تم ہمارے کسی صحافی کے گھر میں گھسے تو ہم تمہارے گھر میں تو نہیں گھس سکتے کیونکہ تمہارے پاس ٹینک ہیں لیکن ہم تمہارے گھر کے اندر کی باتیں ضرور بتائیں گے کہ کس کی بیوی نے کس کو کس 'جنرل رانی' کی وجہ سے گولی ماری. ان کے ٹینک کے ذکر نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ اسد طور پر حملہ کرنے والوں کو کس ادارے کے اہلکار سمجھتے ہیں.
پاکستان کی وزارت اطلاعات کی جانب سے جاری کی گئی ایک پریس ریلیز کے مطابق آئی ایس آئی کی جانب سے اس واقعے کی انکوائری کا مطالبہ کیا گیا تھا اور واضح کیا گیا تھا کہ اس میں ایجنسی کو نہ گھسیٹا جائے. پریس ریلیز کے مطابق اس پر الزامات کسی سازش کے تحت لگائے جا رہے تھے اور ففتھ جنریشن وار کا حصہ تھے.
حامد میر پر آخری مرتبہ پابندی جنرل مشرف کے دور میں 2007 میں عائد کی گئی تھی اور اب عمران خان کے دور میں پھر عائد کی گئی ہے.
معروف صحافی حامد میرکا پابندی لگائے جانے کے بعد پہلا بیان سامنے آگیا ہے۔ سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ میرے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں دو بار مجھ پر پابندی عائد کی گئی ۔ مجھے دو دفعہ نوکری سے نکالا گیا، مجھ پہ قاتلانہ حملے ہوئے مگر کوئی مجھے آئین میں دیئے گئے حقوق کے لئے آواز اٹھانے سے نہیں روک سکتا۔
حامد میر نے کہا کہ اس وقت میں کسی بھی نتائج کے لئے تیار ہوں اور کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوں کیونکہ وہ میرے اہل خانہ کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
https://twitter.com/HamidMirPAK/status/1399284671695908866
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے حامد میر پر پابندی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ صدر پی ایف یو جے شہزادہ ذوالفقار اور سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے اپنے بیان میں کہا کہ جیو انتظامیہ کو صحافتی برادری کو بتانا ہوگا کہ صحافی حامد میر کو انکی تقریر کے 72 گھنٹے بعد کس کے احکامات پر نکالا گیا۔