کیا پاکستان میں آج بھی صحافت پابندِ سلاسل ہے؟

11:48 AM, 31 May, 2021

حسنین جمیل
ابھی ایک طرف وفاقی حکومت کے پیشِ کردہ جنرلسٹ پروٹیکشن بل کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ صحافی اسد طور پر حملہ ہو گیا، اسد طور کے گھر میں گھس کر نامعلوم افراد نے تشدد کیا۔ اسد طور ایک معروف یو ٹیوبر ہیں اور ٹوئٹر پر بہت متحرک ہیں۔ اسد طور نے بطور این ایل ای ایک ٹی وی چینل شروع کیا اسکے بعد بطور پروڈیوسر محتلف ٹی وی چینلز کے ساتھ وابستہ رہے ،ان پر حملہ قابل مذمت ہے، تاہم وہ اپنے مختلف وی لاگز میں جس طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں وہ بھی کوئی قابل تعریف بات نہیں خاص طور پر اپنی خواتین ساتھیوں کے حوالے سے انکی زبان لگام سے باہر جاتی ہوئی نظر آتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کا عہد صحافیوں کے لئے خاصی معاشی مشکلات لیکر آیا ہے ،صحافتی اداروں میں ڈاؤن سائزنگ کی گئی ،کیونکہ عمران خان کی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذمہ واجبات کی ادائیگی میں تاخیر کی گئی۔ اسکی بنیادی وجوہات تین قسم کی ہیں ایک تو سارے واجبات پچھلی حکومت کے تھے ، دوسرا حکومت کو معیشت بد ترین حالات میں ملی اور تیسرایہ کہ تحریک انصاف کی حکومت نے کفایت شعاری کی مہم شروع کی تھی۔ بہرحال اس ساری صورتحال کا ورکنگ صحافیوں کو بہت نقصان ہوا ہے، بےروزگاری عام ہوئی ،اب جبکہ حکومت نے واجبات بھی ادا کر دئیے ہیں اور اپنی حکومت کے منصوبوں کی تشہری مہم بھی شروع کر دی ہے، اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اشتہارات بھی شروع کر دیے ہیں مگر اسکے باوجود اداروں نے نکالنے والے صحافیوں کو تاحال بحال نہیں کیا اور تنخواہوں میں بھی اضافہ نہیں کیا۔

اس ساری صورتحال میں جنرلسٹ پروٹیکشن بل ایک تازہ ہوا کے جھونکوں کی طرح آیا ہے جس کی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ،لاھور کراچی اور اسلام آباد کے پرس کلبز نے خیر مقدم کیا ہے ،اب دوسری طرف مسلسل صحافیوں پر حملے ہو رہے ہیں مطیع اللہ جان پر حملہ ہوا ،اور صحافت چھوڑ ایک سرکاری ادارے پیمرا کے چیئرمین بن جانے والے ابصار عالم کو گولی ماری گئی ،اب اسد طور پر حملہ ہوا ،یہ تمام احباب حکومت اور فوج کے مخالف اور ناقد ہیں لہذا ان پر حملے کا پہلا شک اول الذکر اور ثانی الذکر پر ہی جائے گا۔وفاقی وزیر داخلہ شخ رشید نے تحقیقات کا اعلان کر دیا دیکھتے ہیں کہ نتائج برآمد ہوتے ہیں تاہم بطور صحافی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان ملزمان کو ضرور گرفتار ہونا چاہیے۔

اسد طور پر حملے کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے جو مظاہرہ اسلام آباد میں کیا اس میں حامد میر نے جو اظہار خیال کیا اسکے نتیجے میں جیو ٹی وی چینل نے ان کو اپنا پروگرام کرنے سے روک دیا ہے ابھی تک یہ نہیں پتہ کہ یہ فیصلہ دباؤ میں آکر کیا ہے یا یہ جیو نیوز کی اعلی قیادت کا خودساختہ فیصلہ ہے۔ حامد میر نے اپنی تقریر میں عسکری قیادت پر سنگین الزامات لگائے تھے اور حساس ترین  ادارے کے سربراہ پر سخت نوعیت کے الزامات لگائے تھے۔

کہا جارہا ہے کہ اسد طور پر حملے کے ملزمان کی گرفتاری تک اس ادارے نے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا ہے ملزمان کی گرفتاری کے بعد وہاں سے قانونی کارروائی شروع ہو سکتی ہے ،توہم انکی تردید سامنے آگئی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ اس حملے میں ملوث نہیں ہیں ،تاہم ہم اس انتظار میں ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔

جہاں تک حامد میر کے الزامات کا تعلق ہے اس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیئں۔ حامد میر ماضی میں ہیت مقتدرہ کے پسندیدہ رہے ہیں  اور اسامہ بن لادن کا انٹرویو اس کا ثبوت ہے 9،11 کے بعد اس طرح کا انٹرویو ہیت مقتدرہ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ ان پر پہلے بھی جان لیوا حملہ ہوا تھا جس کا انہوں نے جنرل ظہیر الاسلام پر الزام لگایا تھا تاہم ایف آئی آر میں ان کو نامزد نہیں کیا گیا تھا۔

حال ہی میں جنرل باجوہ نے صحافیوں کو بریفنگ جو دی ہے اس میں انہوں نے حامد میر کو صاف کہا کہ میر صاحب آپ جانتے ہیں آپ پر حملہ مینگل بردارن نے کیا تھا ،جواب میں حامد میر خاموش رہے تھے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ بہت قابل صحافی ہیں اور ایک ساکھ رکھتے ہیں اگر ان کے پاس الزامات کے ثبوت ہیں تو ان کو ضرور پیش کرنے چاہیئں تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو سکے ،یہاں پر آج کے بعد کوئی صحافی حساس اداروں پر الزامات نہیں لگائے گا یا پھر حساس اداروں کا قبلہ درست ہو جائے گا ،اس صورت میں پاکستان کی صحافت کا فائدہ ہو گا اور یو ٹیوب پر بے بنیاد الزامات لگانے کا سلسلہ بند ہو جائے گا ،فی الحال جیو ٹی وی نے حامد میر کو پروگرام کرنے سے روک دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنا یو ٹیوب چینل بنا کر جارحانہ انداز سے کم بیک کرتے ہیں یا خاموشی سے گھر بیٹھ کر اچھا وقت آنے کا انتظار کرتے ہیں۔
مزیدخبریں