فروری 2020 سے طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا جس کے تحت امریکا کو اپنی طویل ترین جنگ کو ختم کرنے کی راہ ہموار کرنا تھی تب سے اب تک افغانستان میں ایک بھی امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا اور اس مدت کے دوران امریکی اڈوں پر ہونے والے حملوں کو بھی طالبان سے منسوب نہیں کیا جاتا جبکہ دوسری جانب طالبان کی طرف سے افغان فورسز پر حملے تیز ہوگئے اور طالبان کی جانب سے حملوں کے نتیجہ میں شہری ہلاکتیں بھی بڑھ گئیں۔افغان حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان امن مذاکرات ستمبر 2020 میں شروع ہوئے تاہم ان مذاکرات کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہو سکے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 کے آخری تین ماہ میں اس سال کے دیگر مہینوں کے مقابلہ میں طالبان حملوں کے نتیجہ میں 45 فیصد سے زائد شہری ہلاک یا زخمی ہوئے۔
طالبان کے صبر کا امتحان لیتے ہوئے امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک نوٹس بھی جاری کیا جسکے مطابق کہ امریکی انخلا ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دی گئی یکم مئی کی ڈیڈ لائن عبور کر سکتا ہے تاہم جوبائیڈن حکومت نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ 11ستمبر یعنی القاعدہ کی جانب سے امریکا پر حملوں کے 20 سال مکمل ہونے تک یہ انخلا مکمل کر لیا جائےگا۔کابل میں موجود مغربی سیکیورٹی عہدہداران کے مطابق یکم مئی کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد بھی ابتک افغانستان میں 2 ہزار کے لگ بھگ امریکی فوجی موجود ہیں جبکہ افغانستان اتحادی افواج کے سربراہ امریکی جنرل سکاٹ ملر نے رواں ہفتے کے آغاز میں بتایا کہ افغانستان سے انخلا کا باضابطہ عمل شروع ہو چکا ہے اور اس دوران فوجی اڈے اور ساز و سامان افغان سیکیورٹی فورسز کے حوالے کئے جا رہے ہیں۔ان فوجی اڈوں کی دیکھ بھال کرنے والے افغان فوجیوں کو کافی تعداد میں اسلحے کی ضرورت ہوسکتی ہے تاکہ وہ ان جنگجوؤں کے کسی بھی حملہ کی مزاحمت کریں جو آس پاس کے علاقوں میں تزویراتی عہدوں پر قابض ہیں۔ جوبائیڈن کے اس اعلان کے بعد کہ امریکی افواج کے انخلاء میں مزید کچھ ماہ لگ سکتے ہیں عسکریت پسندوں نے حملوں میں 100 سے زیادہ افغان سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے۔ اتحادی افواج کے دو افسران کے مطابق امریکا نے اپنے اڈوں پر ہونے والے داعش کے ممکنہ حملوں کو روکنے کے لئے طالبان کی طرف کی گئی حفاظت کی پیشکش کو قبول کیا تھا۔
ان اعلی افسران کے مطابق طالبان اعتماد کی فضا قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جسے عملی طور پر ثابت کرنے کے لئے وہ امریکی اڈوں کی حفاظت کر رہے ہیں تاکہ امریکا کو واضح ہو جائے کہ افغان سرزمین امریکی مفادات کے خلاف استعمال نہیں ہوئی اور یہ فروری کے انتخابات کا ایک اہم مطالبہ تھا۔ امن مذاکرات میں شامل ایک مغربی ڈپلومیٹ کے مطابق اس ضمن میں طالبان نے عملی قدم اٹھاتے ہوئے اپنے جنگجوں کو حکم دیا کہ اس مدت کے دوران کسی غیر ملکی فوجی پر حملہ نہ کیا جائے خبر ایجنسی سے بات کرتے ہوئے ان اعلی افسران نے یہ بھی کہا کہ یہ بھی ضروری تھا کہ طالبان اپنی تحریک میں حقانی نیٹ ورک جیسے دھڑوں پر کنٹرول حاصل کرلیں۔ حقانی نیٹ کے بارے میں تاثر ہے کہ یہ اکثر اوقات اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا رہتا ہے ، حالانکہ اس کے رہنما سراج الدین حقانی دوسرے اعلیٰ درجے کے کمانڈر ہیں۔
امریکا اور طالبان کے درمیان کچھ لو کچھ دو کی پالیسی کے تحت معاہدہ
اتحادی فوج کے کابل میں موجود ایک افسر نے اس ضمن میں مزید تفصیل سے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنے عہد کی پاسداری کی یہاں تک کہ طالبان نے حقانی نیٹ ورک اور داعش کی جانب سے امریکی اڈوں کے ارد گرد ہونےہونے والے معمولی حملوں کا بھی فوری جواب دیا ۔دوسری جانب ہے کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نام نہاد "حفاظتی حصار " سے متعلق خبروں کی نہ صرف نفی کی ہے بلکہ وضاحت سے یہ بتایا کہ انخلا کی ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد طالبان کی جانب سے کسی قسم کے تحفظ کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی تاہم طالبان لیڈر شپ اور امریکی حکام کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ غیرملکی افواج پر حملے نہ کرنے کی یقین دہانی یکم مئی تک کی تھی اسکے بعد حملے کرنے یا نہ کرنے سے متعلق معاملات زیر بحث ہیں ایک اور طالبان ترجمان سہیل شاہین نے اپنی ٹوئٹ ہے کہ طالبان کے ڈپٹی پولیٹیکل چیف ملا برادر نے جمعرات کے روز امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے امن عمل مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کے دوران واضح کیا کہ دونوں اطراف سے اگر فوری حکمت عملی طے نہیں کی جاتی تو کہ افغانستان میں اتحادی افواج کے اڈے جنگجوں کےحملوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
لندن کے سینٹر فار دی سٹڈی آف آرمڈ گروپ ایٹ اوورسیز ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے کوآرڈینیٹر ایشلے جیکسن کا کہنا ہے کہ جنگجو یقیناً افغان اور اتحادی افواج کے اڈوں سے اتنا قریب آ چکے ہیں جتنا ماضی میں کبھی نہ تھے تھنک ٹینک کے مطابق امریکی ، نیٹو ، اور افغان اڈوں کو گھیرے میں لانا ایسا لگتا ہے جیسے طالبان حکمت عملی کے تحت غیر ملکی افواج کے روانگی ک بعد طالبان کی اقتدار سنبھالنے کی تیاری ہے۔افغان وزارت دفاع کے ترجمان فواد امان نے کہا کہ طالبان نے غیر ملکی افواج کے خلاف جنگ کے دوران افغان عوام اور حکومت کے خلاف تشدد کو ہوا دی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ، 2020 میں 3000 سے زیادہ افغان شہری ہلاک اور 5،800 کے قریب زخمی ہوئے۔افغان حکومت کے ترجمان امان نے مزید کہا کہ طالبان غیر ملکی افواج پر حملہ آور نہیں ہیں بلکہ مسلسل افغان سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ افغانستان کے عوام کے خلاف لڑ رہے ہیں۔واشنگٹن میں ووڈرو ولسن سنٹر میں ایشیا پروگرام کے نائب ڈائریکٹر مائیکل کوجل مین نے اس خیال سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پورا حق ہے کہ وہ امریکا طالبان معاہدہ پر کھل کر تنقید کریں کہ دونوں فریقین افغانوں کو رتی بھر ریلیف پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔
چین کی افغان صورتحال میں دلچسپی
چین نے متحارب افغان فریقوں کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی کی پیشکش کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ چین افغان تنازع کے مذاکراتی حل کی سفارتی کوششوں کو دوبارہ شروع کر رہا ہے۔ چین اور افغانستان کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وزیرِ خارجہ وینگ یی نے اپنے افغان ہم منصب محمد حنیف اتمر اور قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ مُحب سے امن مذاکرات کے لیے فون پر بات چیت کی ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے کے لیے صحافی ایاز گُل کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ ماہرین کے نزدیک چین کی جانب سے افغان امن بات چیت کی میزبانی کی پیشکش، امریکہ کی زیرِ قیادت دیگر مغربی افواج کے انخلا کے بعد، خطے میں ایک اہم سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے اپنی پوزیشن بنانے کی کوشش ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کو یہ تشویش ہے کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد، اس کا تباہ حال ہمسایہ ملک، افغانستان انتشار کا شکار ہو جائے گا اور عسکریت پسندی کی محفوظ پناہ گاہ میں تبدیل ہو جائے گا۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وینگ یی نے قومی سلامتی کے افغان مشیر حمد اللہ محب کو بتایا کہ چین، افغانستان کے مختلف فریقوں کے درمیان مذاکرات منعقد کروانے کیلئے تیار ہے، جس میں مذاکرات کیلئے درکار ضروری ساز گار فضا ہموار کرنا بھی شامل ہے۔ صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں ایک دائمی جنگ کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے اور انہوں نے ہدایات جاری کی تھیں کہ باقی 2500 کے قریب امریکی فوجی بھی 11 ستمبر تک افغانستان سے نکل آئیں گے، اور اس انخلا کا آغاز یکم مئی سے ہو گیا۔ چین دونوں فریقوں، طالبان اور افغان حکومت سے قریبی تعلقات رکھے ہوئے ہے۔ حالیہ دنوں میں چین کے وزیر خارجہ، وینگ یی کی جانب سے امریکہ پر یہ کہہ کر سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے اپنی افواج کے انخلا میں جلد بازی سے کام لیا ہے۔ وینگ یی کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اس اقدام سے افغان امن کو نقصان پہنچا ہے اور خطے کے استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ چین کے وزیر خارجہ نے پیر کے روز حمد اللہ محب سے اپنی گفتگو میں اس تنقیدکو دہرایا، اور افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے پرامن انتقال اقتدار کے فروغ میں تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وینگ یی کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اندرونی مصالحتی عمل کے اس نازک موڑ پر، امریکہ کی افواج کے یک طرفہ انخلا سے، بے یقینی میں اضافہ ہوا ہے، تاہم امن کا قیام ہی وقت کا تقاضہ ہے۔ دونوں افغان فریقین نے گزشتہ سال ستمبر میں، قطر میں منعقدہ براہ راست بات چیت کا آغاز کیا تھا۔ یہ مذاکرات، امریکہ اور طالبان کے درمیان افواج کے انخلا سے متعلق فروری 2020 میں ہونے والے معاہدے کا نتیجہ تھے۔ تاہم بین الافغان امن بات چیت زیادہ تر تعطل کا شکار رہی، اور دونوں فریقوں کو اس عمل میں تیزی لانے کی امریکی کاوشیں بے نتیجہ رہی ہیں۔
وینگ یی نے افغانستا ن کے وزیر خارجہ حنیف اتمر سے اپنی گفتگو میں تنازعے میں ملوث تمام فریقوں سے امن مذاکرات کے اچھے آغاز کیلئے ساز گار فضا تشکیل دینے پر زور دیا۔ وینگ یی کا کہنا تھا کہ چین کو امید ہے کہ افغانستان کی مستقبل کی قیادت اعتدال پسند اسلامی پالیسی اپنائے گی، امن پر مبنی خارجہ پالیسی کو فروغ دے گی، ہمسایہ ممالک سےدوستانہ تعلقات استوار کرے گی، اور ہر طرح کی دہشت گردی سے نمٹنے میں سختی سے کام لیا جائے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حمد اللہ محب نے وینگ یی سے کہا کہ طالبان کو امن بات چیت میں سنجیدگی کے ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دینے کیلئے ہر طرح کے اثر و نفوذ سے کام لیا جائے گا۔ چین کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ گفتگو کے دوران حمد اللہ محب کا کہنا تھا کہ افغانستان ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف صف آرا ہے، اور اس میں ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ بھی شامل ہے، اور وہ چین کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی اور سیکیورٹی تعاون کو مزید ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے تیار ہے۔ افغان حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ گفتگو کے دوران وینگ یی اور حمد اللہ محب نے دہشت گردی کو ایک مشترکہ خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں فریق اس کے خلاف صف آرا رہیں گے۔ مشرقی ترکمانستان اسلامی تحریک کو چین ایک دہشت گرد گروپ گردانتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر چکا ہے۔ اس اسلامی تحریک کا کہنا ہے کہ وہ سنکیانگ کے رہنے والے ایغور مسلمانوں کے حقوق کیلئے کام کر رہی ہے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ چین نے دہشت گردی کے خلاف کاروائی کے نام پر، سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کےخلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔