اسد علی طور پر حملے کے خلاف احتجاج کا منطقی جائزہ

02:22 PM, 31 May, 2021

ارشد سلہری
اسد طور پر حملہ ہر صورت میں قابل مذمت ہےاور گھر میں گھس کر مارنا انتہائی تشویشناک ہے۔ تشدد کی ہر شکل معاشرے اور ملک تباہ کر دیتی ہے۔قومیں بکھر جاتی ہیں۔ صحافیوں پر حملے معمول بن گئے ہیں۔ اسد طور پر حملے کی ویڈیو بھی سامنے آ چکی ہے جس میں کئی پہلو واضح ہیں۔ ویڈیو کی مدد سے حملہ آوروں کو آسانی سے شناخت کیا جا سکتا ہے۔ تحقیقات کے بعد اصل حقائق تک پہنچا جا سکتا ہے کہ حملہ کیوں کیا گیا ہے۔ وجوہات کیا ہیں اور حملہ آور کون ہیں؟ یہ کام مقامی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فریضہ ہے۔ اداروں نے فرض ادا نہیں کیا ہے۔ اس کے پچھے کیا وجوہات ہیں کہ ملک کے شہری پر گھر میں گھس کر تشدد کیا گیا ہے مگر اداروں نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اداروں کا طرز عمل بھی کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ مگر صحافتی تنظیم کے مظاہرے نے بھی شکوک و شبہات پر مبنی سوالات چھوڑے ہیں کہ جیسے سب کچھ پہلے سے طے تھا۔

ایک پہلو یہ ہے کہ صحافی یا پروڈیوسر پر تشدد ہوا جس پرصحافیوں کا احتجاج آئینی اور قانونی حق ہے۔ احتجاج کا بنیادی مقصد ظلم اور ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونا ہے۔ ریاست کے اداروں سے انصاف کی مانگ کی جاتی ہے۔ پہلا مطالبہ تشدد کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا کہا جاتا ہے، تاکہ تحقیقات کے بعد حقائق سامنے لائے جائیں اور قانون کے مطابق حملہ آوروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ ٹریڈ یونینز یا پیشہ ورانہ شعبہ جاتی اسوسی ایشنز کا طریق ہے کہ جب تک مطالبات پورے نہ کیے جائیں احتجاج جاری رکھا جاتا ہے۔ کسی قسم کی مصالحت یا مفاہمت نہیں کی جاتی۔ مختصر دورانیے کے احتجاج سے کیا مقاصد حاصل کیے گئے ہیں؟ مقدمہ درج ہوگیا ہے۔ حملہ آوروں کے بارے معلوم ہوا ہے؟ کوئی قانونی کارروائی کی جا رہی ہے؟ اگر ان سوالوں کے جواب نہیں میں ہیں تو احتجاج ختم کیوں کیا گیا ہے؟

دوسرا پہلو یہ ہے کہ احتجاج کے دوران مقررین نے کیا مطالبات کیے ہیں۔ تحقیقات سے پہلے سب مقررین کو یقین تھا کہ صحافی پر حملہ عسکری اداروں نے کرایا ہے۔ مقررین نے سیاسی تقریروں میں عساکر کو سخت لہجے میں ہدف تنقید بنایا ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں ایسا لہجہ شاید نوازشریف کا بھی نہیں تھا۔ مقررین کی تقریروں کا فائدہ کس کو پہنچا اور موضوع سخن کون بنا؟ بحث اسد طور پر ہو رہی ہے یا مقررین پر؟ یہ حقیقت ہے کہ ہر صحافی سیاسی اور نظریاتی رجحانات رکھتا ہے۔ مگر صحافی کو صحافتی انداز ہی اپنانا چاہیے۔

تیسرا پہلو سوال طلب ہے کہ اگر تشدد خفیہ اداروں کی کارروائی ہے تو اس قدر غیر منظم اور کھلے عام گھر میں گھس جانا اور سی سی ٹی وی کیمروں کی پروا نہ کرنا۔ کیا محض ادارے کی بدنامی مطلوب تھی؟ اتنے بڑے ادارے کا صحافی پر اتنا جذباتی پن سمجھ سے بالاتر ہے کہ پلاننگ کے بغیر ہی چڑھ دوڑے اور مار کٹائی کر کے آ گئے۔ اگر خفیہ ادارے کی کارروائی نہیں ہے تو ادارے کا محض یہ کہہ دینا کہ ادارہ  ملوث نہیں ہے ناکافی ہے۔ ادارے کو اس میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ادارے کی ساکھ کا مسئلہ ہے۔ ادارے پر براہ راست انگلیاں اٹھائی گئی ہیں۔

ادارے کو اپنی صفائی دینے کی بجائے حقائق کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس پر انتہائی سنجیدگی دکھانے کی ضرورت تھی۔ مگر افسوس کہ ایسا لگتا ہے ریاست نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ سب اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔
مزیدخبریں