ایک پہلو یہ ہے کہ صحافی یا پروڈیوسر پر تشدد ہوا جس پرصحافیوں کا احتجاج آئینی اور قانونی حق ہے۔ احتجاج کا بنیادی مقصد ظلم اور ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونا ہے۔ ریاست کے اداروں سے انصاف کی مانگ کی جاتی ہے۔ پہلا مطالبہ تشدد کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا کہا جاتا ہے، تاکہ تحقیقات کے بعد حقائق سامنے لائے جائیں اور قانون کے مطابق حملہ آوروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ ٹریڈ یونینز یا پیشہ ورانہ شعبہ جاتی اسوسی ایشنز کا طریق ہے کہ جب تک مطالبات پورے نہ کیے جائیں احتجاج جاری رکھا جاتا ہے۔ کسی قسم کی مصالحت یا مفاہمت نہیں کی جاتی۔ مختصر دورانیے کے احتجاج سے کیا مقاصد حاصل کیے گئے ہیں؟ مقدمہ درج ہوگیا ہے۔ حملہ آوروں کے بارے معلوم ہوا ہے؟ کوئی قانونی کارروائی کی جا رہی ہے؟ اگر ان سوالوں کے جواب نہیں میں ہیں تو احتجاج ختم کیوں کیا گیا ہے؟
دوسرا پہلو یہ ہے کہ احتجاج کے دوران مقررین نے کیا مطالبات کیے ہیں۔ تحقیقات سے پہلے سب مقررین کو یقین تھا کہ صحافی پر حملہ عسکری اداروں نے کرایا ہے۔ مقررین نے سیاسی تقریروں میں عساکر کو سخت لہجے میں ہدف تنقید بنایا ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں ایسا لہجہ شاید نوازشریف کا بھی نہیں تھا۔ مقررین کی تقریروں کا فائدہ کس کو پہنچا اور موضوع سخن کون بنا؟ بحث اسد طور پر ہو رہی ہے یا مقررین پر؟ یہ حقیقت ہے کہ ہر صحافی سیاسی اور نظریاتی رجحانات رکھتا ہے۔ مگر صحافی کو صحافتی انداز ہی اپنانا چاہیے۔
تیسرا پہلو سوال طلب ہے کہ اگر تشدد خفیہ اداروں کی کارروائی ہے تو اس قدر غیر منظم اور کھلے عام گھر میں گھس جانا اور سی سی ٹی وی کیمروں کی پروا نہ کرنا۔ کیا محض ادارے کی بدنامی مطلوب تھی؟ اتنے بڑے ادارے کا صحافی پر اتنا جذباتی پن سمجھ سے بالاتر ہے کہ پلاننگ کے بغیر ہی چڑھ دوڑے اور مار کٹائی کر کے آ گئے۔ اگر خفیہ ادارے کی کارروائی نہیں ہے تو ادارے کا محض یہ کہہ دینا کہ ادارہ ملوث نہیں ہے ناکافی ہے۔ ادارے کو اس میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ادارے کی ساکھ کا مسئلہ ہے۔ ادارے پر براہ راست انگلیاں اٹھائی گئی ہیں۔
ادارے کو اپنی صفائی دینے کی بجائے حقائق کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس پر انتہائی سنجیدگی دکھانے کی ضرورت تھی۔ مگر افسوس کہ ایسا لگتا ہے ریاست نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ سب اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔