تفصیلات کے مطابق پہلے مرحلے میں کابینہ میں شامل کیے جانے والے بقیہ ارکان اسمبلی کے آج حلف اٹھانے کا امکان ہے۔
گزشتہ شب حلف اٹھانے والوں میں مسلم لیگ (ن) کے رانا اقبال، اویس لغاری، ملک احمد خان، خواجہ سلمان رفیق، عطا تارڑ اور بلال اشگر اور اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے حسن مرتضیٰ اور علی گیلانی شامل ہیں۔
اس سے قبل پارٹی کے ایک اندرونی ذرائع نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں 25 ارکان کو کابینہ میں شامل کیا جائے گا، مسلم لیگ (ن) 4 آزاد اور راہ حق کے ایک رکن اسبملی کو کابینہ میں جگہ شامل کر رہی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ حمزہ شہباز کو پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (ق) کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کا وزیر اعلی کے لئے رائے شماری کے لیے رن آف پولنگ میں مقابلہ کرنا پڑے تو وہ ان کے وفادار رہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے 7 اراکین اسمبلی میں سے 6 ٹیم کا حصہ ہوں گے جن میں 4 وزرا اور 2 مشیر ہوں گے، پی پی پی پنجاب کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ سینئر وزیر ہوں گے۔
علیم خان، اسد کھوکھر اور نعمان لنگڑیال سمیت پی ٹی آئی کے منحرف ہونے والے ارکان اسمبلی اپنی جگہ بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب دیکھ رہے ہیں، اس سے قبل مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی سے منحرف ہونے والے 50 فیصد سے زائد اراکین اسمبلی کو کابینہ میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کم و بیش وہی چہرے جو پہلے 18-2013 میں شہباز شریف کی ٹیم کا حصہ تھے ان کا اب چہناز شریف کے بیٹے کی کابینہ میں واپس آنے کا امکان ہے، مجتبیٰ شجاع الرحمان، عظمیٰ بخاری، بلال یٰسین، خواجہ عمران نذیر، منشاء اللہ بٹ اور رانا مشہود کابینہ کے عہدے سنبھالنے والے ممکنہ ارکان میں شامل ہیں۔
اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کی موجودگی میں حمزہ شہباز کو ایوان کو ہموار طریقے سے چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جنہوں نے حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپنے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کو شکست دی، اس سے قبل مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کے منحرف سعید اکبر نوانی کو اسپیکر کا عہدہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔
قبل ازیں گزشتہ روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے محمد بلیغ الرحمٰن کو پنجاب کا نیا گورنر بنانے کی منظوری دی تھی جس سے صوبائی کابینہ کی تشکیل کی راہ ہموار ہوئی جوکہ وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانے کے بعد سے تقریباً ایک ماہ سے رکی ہوئی تھی۔