سپریم جوڈیشنل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا

08:18 AM, 31 May, 2023

حسن نقوی
سپریم جوڈیشنل کونسل (ایس جے سی)  نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف مبینہ مس کنڈکٹ اور دیگر شکایات پر کارروائی کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایات سپریم جوڈیشل کونسل ممبرز کو بھجوا دی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق مسعود سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد احمد علی شیخ، لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی بھی سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے پاس بطور چیئرمین جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلانے کا اختیار ہے۔

23 فروری کو میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنس بھجوایا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ کے جج اور ان کے اہلخانہ کی جائیدادوں کی تحقیقات کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

ریفرنس میں اپیل کی گئی کہ سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے اثاثوں کی تحقیقات کرے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے اثاثے 3 ارب روپے سے زائد مالیت کے ہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا فیڈرل ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک کنال کا پلاٹ ہے۔

ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا سپریم کورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک کنال کا پلاٹ ہے۔ گلبرگ تھری لاہور میں 2 کنال 4 مرلےکا پلاٹ ہے۔ سینٹ جون پارک لاہورکینٹ میں 4 کنال کا پلاٹ ہے۔ اثاثوں میں گوجرانوالا الائیڈ پارک میں غیر ظاہر شدہ پلازہ بھی شامل ہے۔

ریفرنس میں الزام لگایا گیا ہےکہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے مبینہ طور پر 2021 میں 3 بار سالانہ گوشواروں میں ترمیم کی۔ گوشواروں میں ترمیم گوجرانوالا ڈی ایچ اے میں گھر کی مالیت ایڈجسٹ کرنےکے لیےکی گئی۔ پہلےگھرکی مالیت47 لاکھ پھر 6 کروڑ اور پھر 72 کروڑ ظاہرکی گئی۔

علاوہ ازیں 4 مارچ کو مسلم لیگ ن لائرز فورم نے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت درج کرائی تھی۔ درخواست میں استدعا کی گئی کہ جسٹس مظاہر نقوی نے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی جائے۔

22 مارچ کو ایڈووکیٹ غلام مرتضیٰ خان کی جانب سے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف مبینہ مس کنڈکٹ پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور شکایت درج کرائی گئی۔

درخواست میں جسٹس سید مظاہر علی نقوی کے خلاف ایس جے سی پروسیجر آف انکوائری، 2005 کے رول 9 کے تحت مکمل انکوائری کا مطالبہ کیا گیا۔

درخواست گزار نے استدعا کی ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی کو شوکاز نوٹس جاری کیے جائیں اور  اگر وہ کارروائی کے سپریم جوڈیشل کونسل کو تسلی بخش جواب فراہم کرنے میں ناکام ہو تو  اس کے رپورٹ صدر کو دی جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ جج کا طرز عمل جج بننے کے لیے نامناسب تھا اور وہ آئین کے آرٹیکل 209(5)(بی) اورایس جے سی انکوائری پروسیجر کے رول 3 کے تحت مبینہ طور پر مِس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔

شکایت میں مزید کہا گیا کہ نیز جج کا طرز عمل آرٹیکل 209(8) کے تحت جاری کردہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کے ضابطہ اخلاق کے آرٹیکل III ،VI اور VIII کی خلاف ورزی تھا۔

درخواست میں الزام لگایا گیا کہ سپریم کورٹ کے جج اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان مبینہ گفتگو کے کئی آڈیو کلپس ان کے گہرے اور قریبی تعلقات کی عکاسی کرتے ہیں۔ایک ایسی ہی گفتگو کے وقت اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری محمد خان بھٹی جج کی رہائش گاہ پر موجود تھے جنہوں نے واضح طور پر وضاحت کی کہ جج نے مبینہ طور پر سابق وزیر اعلیٰ اور ان کے پرنسپل سیکریٹری سے فوائد حاصل کیے تھے اور بدلے میں ان کے قریبی لوگوں کے مقدمات کے نتائج کو متاثر کیا۔

شکایت میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ جج اپنے بیٹوں کے لیے سازگار فیصلوں کے حصول میں مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے سیکریٹری پر اثر ڈال کر مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے۔جج نے اپنے بیٹوں کو ایف بی آر، این ایچ اے اور دیگر اداروں کے پینل میں شامل کروا کر اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ جج کے بیٹوں کی ایک قانونی فرم نے متروکہ وقت املاک کی 2 ہزار11 مربع فٹ جگہ پر قبضہ کر کے اپنا دفتر قائم کیا جس کے لیے ابتدا میں جج نے متروکہ وقف املاک کے متفقہ کرایے پر بیٹوں کے دفتر کے لیے یہ جگہ حاصل کرنے کی غرض سے اپنے اثر رسوخ کو استعمال کیا لیکن بعد میں کرایہ کو نمایاں طور پر کم کر کے 9 روپے فی مربع فٹ کر دیا گیا اور جج کے بیٹے مال روڈ لاہور پر واقع اس اہم جائیداد کے لیے ماہانہ 18 ہزار 101 روپے ادا کرتے ہیں۔

یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ ایک مشہور ڈویلپر، زاہد رفیق نے کمرشل پلاٹ دینے کے علاوہ، جج کی بیٹی کو 10 ہزار پاؤنڈز برطانیہ میں منتقل کیے اور اس کے علاوہ 51 ہفتوں کے لیے اس کی رہائش کے لیے 395 پاؤنڈز کے ہفتہ وار کرایے کی ادائیگی کی۔  اس کے علاوہ زاہد رفیق نے جج مظہر کے بیٹے کے لیے لندن کے فائیو اسٹار ہوٹل مونٹکلم رائل لندن ہاؤس میں 10 راتیں گزارنے کا انتظام بھی کیا تھا۔ اس کے بدلے میں جج نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے مختلف اسسٹنٹ کمشنرز، ایس ایچ اوز، ڈی ایس پیز، جوڈیشل افسران وغیرہ کی پوسٹنگ اور تبادلے کروائے  تاکہ ڈویلپر کے تجارتی مفادات کو محفوظ رکھا جا سکے۔ مجموعی طور پر 60 پوسٹنگ اور ٹرانسفرز  کی گئی تھیں۔

شکایت میں مزید الزام لگایا گیا کہ مذکورہ جج محمد عارف خان کی ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی زکوٰۃ و عشر کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر تقرر پر اثر انداز ہوئے اور اس تعیناتی کا انتظام محمد خان بھٹی کے ذریعے کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ شکایت میں مختلف علاقوں میں متعدد پلاٹوں کا بھی حوالہ دیا گیا، جو جج کے قبضے میں ہیں۔

اس سے قبل آڈیو لیکس کے معاملے پر پاکستان بار کونسل کی زیر قیادت تمام بار کونسلز نے جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مزیدخبریں